ملک کے طول و عرض بلکہ عالمی میڈیا میں بھی آج کل ریحام خان کی نہایت متنازعہ کتاب کے چرچے ہیں جو پبلش ہونے سے پہلے آن لائن لیک ہو چکی ہے۔ ایک طبقہ اس کے مواد کو درست ثابت کر کے عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانے کے درپے ہے، دوسرا طبقہ اسے غلط ثابت کر کے عمران خان کی عزت کےلیے ڈھال بنا ہوا ہے، جبکہ تیسرا طبقہ اس کتاب کے مبینہ مواد سے صرف لذت اٹھانے پر اکتفا کر رہا ہے۔
ریحام خان کی اس کتاب کے تحریک انصاف کےلیے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے اس پر سیر حاصل بحث کی جا چکی ہے۔ ریحام خان کا ماضی بھی پوری طرح بے نقاب کیا جا چکا ہے اور ریحام خان اس سے بے نیاز ہو کر مقامی و عالمی میڈیا کی لائم لائٹ میں بھی بھرپور جگہ بنا چکی ہیں جو ان کا اصل مقصد تھا۔
لیکن اس سارے قضیے کا ایک اہم پہلو ایسا ہے جس پر بات ہونا باقی ہے۔ ہم تمام سیاسی نظریات سے بالاتر ہو کر اس پہلو کا مختصر تجزیہ کریں گے۔ محترم قارئین سے عاجزانہ التماس ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے سیاسی عینک اتار دیں، تاکہ ہم یکسو ہو کر اس پر بات کر سکیں کہ ریحام خان کی اس کتاب کے ہمارے سماج پر دور رس اثرات کیا ہوں گے۔
عمرانیات کے ماہرین جانتے ہیں کہ کسی معاشرے میں وہ عمل معیوب سمجھا جاتا ہے جسے معاشرے کے افراد کی بڑی اکثریت غلط سمجھتی ہو۔ جیسے جیسے اس عمل کو درست سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اس عمل کی معاشرے میں قبولیت بڑھتی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے جب وہی عمل جو معاشرے میں کبھی معیوب سمجھا جاتا تھا، قبولیت کا درجہ پا کر معاشرے میں رائج ہو جاتا ہے اور کلچر کا حصہ بن جاتا ہے۔ اسے کلچرل ٹرانسفارمیشن کہتے ہیں۔ یہ عمل اگرچہ سست ہوتا ہے لیکن معاشرتی روایات میں تبدیلی اسی سست رو عمل سے رونما ہوتی ہے۔
اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی ذاتی نوعیت کی معلومات کو طلاق سے پہلے یا بعد میں افشا کریں تو ہمارے آج کے معاشرے میں ایسا کرنے والے کو بہت بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، یعنی معیوب گردانا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہمارے معاشرے میں مضبوطی کے ساتھ اس لیے رائج ہے کیونکہ ہماری عورتیں باحیا ہیں اور مرد با غیرت۔ طلاق ہو جانے کے باوجود کوئی عورت اپنی عزت سر بازار بیچ کر اپنے سابقہ خاوند کو رسوا نہیں کرتی اور کوئی مرد اپنے بچوں کی ماں کو ذلیل نہیں کرتا۔ سمجھدار لوگ خاموشی سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ ہمارا خوبصورت اور باوقار کلچر ہے۔
لیکن جب ریحام خان کی کتاب کا مواد سامنے آنے پر پاکستان میں موجود ایک بڑے طبقے کو اس کی حوصلہ افزائی کرتے دیکھا تو دل کو شدید تکلیف پہنچی کہ اس حوالے سے ہمارا کلچر تبدیل ہو رہا ہے، اور اگر ایسے کاموں کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو معاشرے میں عام مرد و زن کو اس قبیح فعل کی جرات ملے گی کہ طلاق کے بعد مخالف فریق کو اس طرح بھی بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ اس سوچ کے عام ہونے سے ہمارے سماجی ڈھانچے اور ازدواجی معاملات کی باریکیوں پر اثر پڑ سکتا ہے اور ایسے خطرناک رجحانات جنم لے سکتے ہیں جو ہمارے خاندانی نظام کی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے۔
ایک لمحے کےلیے سوچیے کہ اگر بعد از طلاق میاں بیوی کی طرف سے ایک دوسرے کو رسوا کرنے کا نیچ عمل معاشرے میں بطور روایت قبول کر لیا جائے تو میاں بیوی نکاح ہوتے ہی ایک دوسرے کے خلاف بلیک میل کرنے کےلیے مواد اکٹھا کرنے لگیں گے تاکہ خدانخواستہ طلاق کی نوبت آئے تو اس مواد کو اپنے تحفظ کےلیے استعمال کیا جا سکے۔ اس صورتحال میں میاں بیوی کے درمیان محبت کی وہ ڈور کیسے مضبوط ہو سکتی ہے جس کے سہارے اس رشتے کو زندگی بھر نبھانے کی طاقت ملتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف اکٹھا کیا گیا مواد طلاق تک نوبت پہنچنے سے پہلے غلطی سے بھی لیک ہو سکتا ہے جس سے پورے گھرانے کی خوشیاں خاک میں مل سکتی ہیں۔
پاکستان میں مجموعی طور پر طلاق کی شرح تقریباً چالیس فیصد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دس شادیوں میں سے چار بد قسمتی سے طلاق پر منتج ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں روزانہ دو سو سے زائد طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اس صورتحال میں علیحدگی اختیار کرنے والے جوڑے اگر ریحام خان کے طرز عمل کی تقلید کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف نجی نوعیت کی معلومات و مواد سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر شئیر کرنے لگ جائیں تو ہمارے معاشرے کی اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکل جائے گا؟ کیا ان حالات میں لوگوں کی ازدواجی زندگیاں جہنم نہیں بن جائیں گی؟ کیا میاں بیوی نکاح کے بعد پہلے دن سے ہی ایک دوسرے سے ڈرنے نہیں لگیں گے؟
اگر ایک مرد بعد از طلاق اپنی سابقہ اہلیہ کی نازیبا تصاویر دنیا کے سامنے لے آئے (جو کہ مشکل کام نہیں) یا اس کی اور اس کے خونی رشتوں کی انتہائی نجی نوعیت کی معلومات زمانے بھر میں پھیلا دے تو اس عورت کا یا اس کے گھرانے کا معاشرے میں کیا مقام باقی رہ جائے گا؟ کیا آپ چاہیں گے کہ ایسے مرد کو ہمارا معاشرہ برا کہنے کہ بجائے سر آنکھوں پر بٹھائے؟ کہ تم نے بہت اچھا کام کیا، یقیناً آپ ایسا نہیں چاہیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے سابقہ خاوند کی عزت کو اچھالتی ہے تو اسے بھی تحسین بھری نگاہوں سے دیکھنا جرم ہے۔
قرآن مجید زوجین کے متعلق فرماتا ہے “ھُنَّ لِبَاسُ اْلَّکُم وَاَنتُم لِبَاسُ اْلَّھُن” جس کا ترجمہ ہے “تم ان کا لباس ہو اور وہ تمہارا لباس” یعنی زوجین ایک دوسرے کی عزت و حیا کے محافظ ہیں، اور یہ حکم طلاق کے بعد بھی دونوں پر بعینہٖ نافذالعمل رہتا ہے۔ پھر دوسری جگہ ارشاد ہے کہ “تَس٘رِیحُ بِااْلاِحسَان” یعنی احسان کے ساتھ علیحدہ ہو جاؤ۔ اس حکم میں بھی دونوں کو علیحدگی کی اَرفَع اخلاقیات پر قائم رہنے کا کہا گیا ہے۔
ان دونوں احکاماتِ الٰہی کا خلاصہ اور لُبِ لباب یہ ہے کہ ہماری بلند پایہ اسلامی معاشرتی اخلاقیات اس بات کو سخت ناپسند کرتیں ہیں کہ زوجین بعد از طلاق ایک دوسرے کو معاشرے میں رسوا کرتے پھریں۔
اب ان باتوں کی روشنی میں آپ خود سوچیں، کیا ریحام خان کا ایسی متنازعہ کتاب لکھنا “ھُنَّ لِبَاسُ اْلَّکُم وَاَنتُم لِبَاسُ اْلَّھُن” اور “تَس٘رِیحُ بِااْلاِحسَان” کے مطابق ہے؟ ہرگز نہیں۔
دوسری جانب آپ عمران خان کا طرزِ عمل دیکھیں کہ ان کی زندگی میں دو بار طلاق جیسا تکلیف دہ مرحلہ آیا، لیکن انہوں نے آج تک ایک لفظ بھی اپنی دونوں سابقہ ازواج کے بارے میں نہیں بولا اور نہ ان کا کوئی حق ضبط کیا۔ بلاشبہ عمران خان کا یہ عمل قرآنی احکامات کے عین مطابق ہے۔ ہمیں یہ بات لاکھ سیاسی اختلافات کے باوجود کھلے دل سے تسلیم کرنی چاہیے۔
ورنہ کیا عمران خان ریحام خان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں جانتے ہوں گے جو ریحام خان کی بدنامی کا باعث ہو؟ (یہ الگ بات ہے کہ ریحام خان کو اپنی بدنامی سے کوئی سروکار نہیں) ایسی درجنوں باتیں ہوں گی، لیکن عمران خان کی خاموشی ان کی کمزوری یا خوف کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی شرافت ہے جسے عمران خان کے مخالفین ماننے کو تیار نہیں۔
ان باتوں کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ افراد اور وہ معاشرہ بد ترین اخلاقی پستی کا شکار ہے جو کسی عورت کی ایسی شرمناک اور غیر اخلاقی حرکت پر اس کی حوصلہ افزائی کرے، موقع پرستی کرتے ہوئے سیاسی فوائد حاصل کرے، کتاب کے مواد سے حِظ اٹھائے، ایسے افراد اور ایسا معاشرہ اخلاقی زوال کی معراج پر ہے۔
اگر ہم ایک مہذب معاشرے میں جی رہے ہوتے تو تمام سیاسی جماعتیں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر اور سوسائٹی کے تمام عناصر سیاسی نظریات سے بالاتر ہو کر اس کتاب کی باجماعت حوصلہ شکنی کرتے (صرف کتاب سے لاتعلقی کافی نہیں) اور ریحام خان کو اپنی کتاب کے حمایتی ڈھونڈنے پر بھی نہ ملتے۔ ریحام خان ہمارے کلچر کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہیں کہ ہم اپنے کلچر کی بہترین اقدار کے تحفظ کا شعور نہیں رکھتے۔ یہ تحریر اسی شعور کو اجاگر کرنے کےلیے ہے۔
“شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات”
علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان کو اس پر از خود نوٹس لے کر کتاب کی اشاعت پر پابندی لگانی چاہیے، اور موصوفہ کو بعد از طلاق سابقہ شوہر کی عزت کو نقصان پہنچانے پر سزا دینی چاہیے؛ کیونکہ یہ ایک بہت بڑا اخلاقی جرم ہے۔ اگر اس پر قانون موجود نہیں تو اگلی حکومت کو اس پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں ایک باوقار کلچر پروان چڑھایا جا سکے۔
خدارا جاگ جائیے۔ اپنے اخلاقی اقدار سے پیار کیجیے۔ ان کا تحفظ کیجیے اور ریحام خان کی اس کتاب کی بلا سیاسی تفریق مذمت کیجیے۔