ہر شخصیت کا اپنا رعب اور دبدبہ ہوتا ہے، آپا مہناز رفیع اس قدر محترم ہیں کہ میں ان کے چہرے پر کبھی نظریںنہیں جما سکا۔آپ کچھ بھی کہہ لیجئے، ایک بار لاہور کینٹ میں بیگم ذکیہ شاہنواز کے گھر وجے لکشمی پنڈت آئیں، میں ان کاا نٹریو کرنے گیا۔ اور ان کے سامنے کرسی یا صوفے پربیٹھنے کے بجائے قالین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔صاحب خانہ نے اس پر بے حد حیرت کا اظہار بھی کیا۔آپا مہناز کی میں اس سے ڈھیروں زیادہ قدر و منزلت کرتا ہوں۔
میں نے انہیں پی ٹی وی لاہور میںکام کرتے نہیں دیکھا، تب ملنا ہوا جب وہ خبر کرتیں کہ ایئر مارشل اصغر خان لاہورآئے ہوئے ہیں، یہ ان کا انداز تھا ملاقات کیلئے بلاوے کا۔ اصغر خان کی میں تہری عزت کرتا تھا، ایک تو وہ ہماری ایئر فورس کے لیجنڈ، پھر میرے مانچسٹر کے دوست غلام محی الدین کا حکم ۔وہ تحریک استقلال بر طانیہ کے صدر ہوا کرتے تھے۔ نجانے کتنی ہی ملاقاتیں اصغر خان سے ہو گئیں ، اسلام ا ٓباد میں ان کے دولت خانے میں بھی کئی ضیافتوںمیں شریک ہونے کا موقع ملتا رہا۔
آپا جی جماندرو مسلم لیگی ہیں، میںنہ انہیں تحریک استقلال کا مانتا ہوں، نہ ایم آری ڈی کا، نہ ق لیگ کاا ور نہ مجھے وہ تحریک انصاف میں فٹ نظر آتی ہیں، بس میںنے کہا نا، کہ وہ پیدائشی مسلم لیگی ہیں، قائد اعظم والی مسلم لیگ ان کے رگ و پے میں ہے، ان کی نس نس میں ہے، ان کی گھٹی میں ہے اور ان کے سانسوں کی مہک میں ہے، ان کے ہونٹوں کے تبسم میں ہے۔اور ان کی پیشانی پر قوس قزح کے رنگ بکھیرتی ہے۔اس لئے وہ جس پارٹی میں بھی گئیں، وہ اسی مسلم لیگ کے پیغام کو کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔
انہیں خود یاد نہیں کہ کتنی بار قید وبند سے گزرنا پرا، جب پولیس پہلی مرتبہ ان کے گھر گرفتاری کے لئے آئی تو پورا خاندان پریشان تھا کہ یہ گرفتاری کیا بلا ہے، کبھی اس خاندان کا کوئی فرد جیل تو کجا ، تھانے نہیں گیا تھا۔مگر ایک مرتبہ جیل کی ہوا کھا لینے کے بعد قفس انہیں راس آ گیا۔کہ یہی ان اکاصلی گھر بن گیا۔
وہ جدو جہد کی قائل ہیں۔جب ایک مقصد کو گلے لگا لیا تو لگا لیا، پھر وہ اس سے پیچھے ہٹنے کا نام نہ لیتیں۔ ان جیسی سیاسی جدو جہد مردوںنے بھی نہ کی ہو گی، آپا جی نے خواتین کی سیاست کو زندہ کیا، خواتین کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے تن کر کھڑی ہو جائیں، وہ نام نہاد این جی ا وز کی طرح خواتین کے حقوق کی نمائشی چیمپئن نہیں بلکہ خلوص دل کے ساتھ چاہتی ہیں کہ اس ملک کی عورت اور عالم اسلام کی عورت بی بی ہاجرہ کے نقش قدم پر چلے، اور وہ کام کر دکھائے کہ ساری امت اس کے نقوش پا پر چلنے کی پابند ٹھہرائی جائے۔
نظریہ پاکستان کاا دارہ بنا، میرے مرشد مجید نظامی اس کے مدارالہام تھے اور آپا جی ا سکی روح رواں بنی رہیں۔میرے مرشد نے پیش کش کی کہ جموں چھائونی پر ایک ایٹمی میزائل داغا جائے اور انہیں ا سکے ساتھ باندھ دیا جاے تو آپا مہناز رفیع جذباتی ہو گئیں ، کہنے لگیں کہ آپ سے پہلے میں اس قربانی کے لئے تیار ہوں۔اور پھر ایوان کارکنان کے وسیع ہال میں بیٹھی ہوئی ہر محترم خاتون چلاّ رہی تھی کہ میں یہ قربانی دوں گی۔ یہ منظر دیدنی تھا، دل کو گرما دینے والا تھا اور رلا دینے والا تھا کہ کشمیر کی خاطر ہماری خواتین کتنی بڑی قربانی کے لئے تیار ہو گئی تھیں۔یہ قربانی بی بی حاجرہ کے ننھے فرزند اسماعیل نے پیش کی تھی۔لگتا ہے بی بی حاجرہ اور ان کا گھرانہ آپا مہناز رفیع کاا ٓئیڈیل ہے۔
آج آپا جی کا تذکرہ کیوں چھیڑنا پڑا،ا س لئے کہ ایک مصنف کی حیثیت سے میرا اب ان سے تعارف ہوا۔ لکھ تو وہ ایک عرصے سے رہی ہیں، ان کے کالم نوائے وقت کی زینت بنتے ہیں اور قارئین کو سوچ پر مجبور کر دیتے ہیں۔مگر اب مجھے ان کی دو تصانیف دستیاب ہوئیں اور میں نے جھٹ ان کو پڑھے بغیر انٹرنیٹ پر پیش کر دیا، دنیا میں ای لائیبریری کا عام رواج ہے، انگریزی اور ہر زبان کی کتابیں حتی کہ پنجابی اور گورمکھی کتابیں انٹرنیٹ پر آن لائن پڑھنے یا ڈائون لوڈ کے لئے مل جاتی ہیں،مگر اردو کتابوں کا ذخیرہ انٹر نیٹ پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
آپا مہناز رفیع کے ساتھ ایک مختصر نشست برپا کی۔ سمجھ لیجئے کہ یہ ان کی دونوں کتابوں کی ڈیجیٹل رونمائی تھی۔ پہلی کتاب ہے۔۔ سفر۔۔ جو ان کے مضامین کامجموعہ ہے اور خواتین کے حقوق اور سیاسی اصلاحات پر لکھے گئے کالم اس میں شامل کئے گئے ہیں۔اس کتاب کا دیباچہ ایس ایم ظفر کا تحریر کردہ ہے جو نامور وکیل اور سیاتدان ہونے کے ساتھ خود بھی صاحب اسلوب لکھاری ہیں اور ہیومین رائٹس ایسوسی ایشن کے چیئر مین بھی ، جس کی آپا جی وائس چیئر مین ہیں۔ظفر صاحب کا یہ تبصرہ نقل کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ کو چھوڑ چکی ہیں مگر قائد اعظم کے اصول جو مسلم لیگ کے منشوروںمیں درج ہوتے رہے ہیں،وہ ان کے ذہن میں عکس ہیں اور وہ جس پارٹی میں بھی جائیں قائد کا پیغام ہی عام کرتی ہیں۔
ایس ایم ظفر کے ساتھ ان کاایک ا ور قریبی رشتہ ہے کہ آپا مہناز رفیع کے شوہر محمد یحییٰ، ظفر صاحب کے کلاس فیلو رہے ہیں۔ اس رشتے میں دو خاندان ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے جڑ گئے۔
ہماری نشست میں بھی یحییٰ صاحب نے نوازش فرمائی کہ وہ بھی آپا جی کے ساتھ تشریف لائے اور ان سے ستر کے عشرے کی یادیں تازہ کیں جب وہ ریلوے میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز تعینات تھے، ہم صحافیوں کے لئے ان دنوں پچاس فیصد رعائت کے ساتھ کارڈ بنتے تھے جس پر کبھی سفر تو نہیں کیا مگر ان کی تجدید کے بہانے یحییٰ صاحب کو ضرور ملنے پہنچ جاتے تھے، ان کی طبیعت میں ایک عجب مٹھاس ہے۔
دوسری کتاب۔ ۔ مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں۔۔ یہ محترمہ کی آپ بیتی ہے اور غیر مقسم ہندوستان کے ماحول کے تذکرے سے شروع ہو کر آپا جی کی سیاسی زندگی کے ہر موڑ کے ساتھ قاری کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔
میں اپنے مرشد نظامی کے لکھے ہوئے دیباچے سے چند سطور پیش کرنے پر اکتفا کروں گا کہ ان کی تحریر کے سامنے کس کا چراغ جل سکتا ہے، فرماتے ہیں کہ میں صدق دل سے سمجھتاہوں کہ زیر نظر کتاب ایک قومی دستاویز ہے۔در حقیقت وہ پاکستان کو قائد اعظم کے نظریات و تصورات کے مطابق ایک جدید ، اسلامی، جمہوری ، فلاحی ریاست بنانے کے لئے دشت سیاست میں محو سفر ہیں۔
مرشد نظامی کی زندگی کا مقصدو محور بھی یہی تھا۔
ہماری نشست بے حد مختصر تھی، وحید رضا بھٹی نے عالم دین بن کر ان سے مناظرہ شروع کر دیا مگر آپا جی بھی کسی جامعہ ازہر سے کم کے ادارے کی فارغ التحصیل مولوی نہیں لگتی تھیں، انہوں نے قرآن کی آیات ا ور احادیث مبارکہ کی حقیقی تشریح سے ہماری زبانیں بند کردیں۔
مشرف ا ور پرویز الہی کو آپا جی بہت یاد کرتی ہیں، مشرف نے خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی بڑھائی ا ور پرویز الہی نے پنجاب میں دور رس تبدیلیوں اور ترقیاتی منصوبوں کاآغاز کیا۔
باتیں تو بہت ہوئیں اور انتہائی متاثر کن بھی۔ یہ محفل اسلئے بھی یاد گار بن گئی کہ زندہ دل صحافی ا ور ایڈیٹر شفقت محسن چودھری کی وجہ سے سابق رکن اسمبلی کنول نسیم بھی آ گئیں جنہوںنے آپا جی کو جی بھر کے داد دی۔ اس محفل کا سحر تا دیر ذہنوں پر حاوی رہے گا۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭…٭