لندن (ویب ڈیسک) برطانیہ کے رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ (آر یو ایس آئی) نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے پاس اپنے مالیاتی نظام کی ساکھ کو بہتر کرنے کے کئی مواقع موجود ہیں، جس کے ذریعے ملکی قیادت غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں کو روکنے کے قابل ہوسکے گی اور وہ بیرون ممالک میں موجود عناصر یا افراد کیخلاف غیر قانونی مالیاتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ان کیخلاف اقدامات اٹھاسکے گی۔ نواز شریف اور زرداری کیسز کے باعث پاکستان برطانیہ کو گندے پیسے (ڈرٹی منی) کی منزل سمجھتا ہے۔ آر یو ایس آئی (RUSI) کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حوالہ اور ہنڈی میں ملوث افراد کیخلاف سخت کارروائی کی جائے اور برطانوی حکومت سمیت عالمی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ موجود عدم مطابقت کو ختم کیا جائے، برطانوی حکومت پاکستان سے ہونے والے منظم جرائم جیسا کہ منشیات کی اسمگلنگ پر تشویش رکھتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ٹیکس اور انسداد منی لانڈرنگ کے قوانین واضح کرے۔ آر یو ایس آئی کی رپورٹ پاکستانی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹس کی روشنی میں جاری کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسران نے بڑی رقم غیر قانونی طور پر حاصل کی اور پھر اسے بیرون ملک منتقل کردیا گیا۔ آر یو ایس آئی نے ’’سیکورٹی تھرو فنانشل انٹیگریٹی: مینڈنگ پاکستان لیکی سیوی‘‘ نامی رپورٹ کے حوالے سے اپنی رائے دی کہ پاکستان کا مالیاتی نظام خفیہ جرائم کیخلاف دفاع کی فرسٹ لائن ہے جبکہ رپورٹ میں پاکستان میں انسداد بدعنوانی کی حکمت عملیوں کیلئے اس کے مالیاتی نظام میں موجود خطرے کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اس اعدادوشمار کو شائع کرے جو انہوں نے مالیاتی جرائم کو قابو کرنے کے لئے کئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا ایک ملک پاکستانی پیسے کیلئے ایک پرکشش ملک ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت کو بالخصوص ایف اے ٹی ایف کی آنے والی رپورٹ کے پیش نظر ملک سے غیر قانونی طور پر پیسے کو بیرون ملک جانے سے روکنے کیلئے مذکورہ ملک کیساتھ مل کر اتحاد قائم کرنا چاہئے اور اس ضمن میں عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا چاہئے اور یہ اس ملک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کیساتھ تعاون کرے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ عالمی سطح پر سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان برطانیہ کو بدعنوانی کی جنت کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ہائی پروفائل کیسز کی وجہ سے ہے، جن کی برطانیہ میں جائیدادیں موجود ہیں۔ یہ واضح احساس ہے کہ برطانیہ کو پاکستان سے حاصل کی گئی گندی رقم (غیر قانونی رقم) کی منزل سمجھا جاتا ہے اور اگر سیاسی پختہ ارادہ ہو تو برطانوی قانون اس رحجان کو تبدیل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حالیہ قانونی ڈیولپمنٹس بالخصوص ’’ان ایکسپلینڈ ویلتھ آرڈرز‘‘ کے متعارف کروائے جانے کے بعد اس کے حوالے سے بڑے پیمانے پر شعور موجود ہے، تاہم ان قوانین کی حدود کے بارے میں بظاہر ہم آہنگی کم ہی نظر آتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر چہ برطانوی حکومت نے پاکستان میں جرائم سے نمٹنے کیلئے اس کی صلاحیتیں بڑھانے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں تکنیکی معاونتی پروگرامز بھی شامل ہیں۔ برطانوی قانون ساز اداروں کی توجہ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے پر ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے بینکنگ نظام میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک نجی بینک نے مبینہ طور پر 2کروڑ ڈالر کا قرضہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے منسلک ایک کمپنی کو دیا، تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی انکوائری میں نہ ہی اس سیاسی شخصیت سے پوچھا گیا اور نہ اس کمپنی کی ملکیت رکھنے والے ان کے خاندانی رکن سے پوچھ گچھ کی گئی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی 2003 میں جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ادارہ پاکستان میں دولت مند افراد کی جانب سے بڑے پیمانے پر بینک فراڈ کے رد عمل میں وجود میں لایا گیا۔