سمندر میں سے غذا نکال کر فروخت کرنے والے ایک اسکوبا ڈائیور کے بدن میں نائٹروجن گیس بھرنے سے اس کی جلد میں ہوا بھر گئی ہے اور ان کے بازو اور کندھے غباروں کی مانند دکھائے دیتے ہیں۔
چار سال قبل وہ 30 فٹ گہرے پانی میں تھے کہ وہ سمندر کی گہرائی سے غیرمعمولی تیزی سے اوپر کی جانب آئے۔ اس دوران سانس لینے کے گیس سلنڈر میں موجود نائٹروجن کی بڑی مقدار ان کے جسم میں چلی گئی جس سے وہ خون میں جمع ہوکر بڑے بلبلوں کی شکل اختیار کرگئی اور اس کے بعد ان کے بازو اور دیگر اعضا اس طرح دکھائی دے رہے ہیں کہ گویا ان میں ہوا بھری ہوئی ہے۔
ان کی دکھ بھری داستان پیرو کے ٹی وی چینلوں پر دکھائی گئی ہے اور ڈاکٹر اسے دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں۔ اس کیفیت میں غنودگی اور جوڑوں کے درد سے لے کر موت تک واقع ہوسکتی ہے لیکن پہلی مرتبہ نائٹروجن کے جسم پر ایسے اثرات نوٹ کئے گئے ہیں جس سے مارٹنیز متاثر ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ان کے جسم سے نائٹروجن بلبلے نکالنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ یہ بلبلے انسانی گوشت سے چپک جاتے ہیں اور انہیں سرجری سے الگ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ مریض کو ایک پریشرائز چیمبر میں بٹھا کر آکسیجن فراہم کی جاتی ہے جس سے بدن میں نائٹروجن خارج ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس علاج سے الیہاندرو راموس مارٹنیزکے بدن سے 30 فیصد گیس کم ہوچکی ہے جبکہ اسے مزید 100 مرتبہ چیمبر میں بیٹھنا ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر صحتیاب ہوسکے۔
واضح رہے کہ اسکوبا ڈائیونگ کے سلنڈر میں آکسیجن نہیں بلکہ ہوا ہوتی ہے اور یہ وہی ہوا ہے جس میں ہم سانس لیتے ہیں جس میں 78 فیصد نائٹروجن اور 21 فیصد تک آکسیجن ہوتی ہے۔ بسا اوقات گہرائی میں جانے سے نائٹروجن کا پریشر بدن کے اندر کے دباؤ سے بڑھ جاتا ہے اور وہ جسم کے خلیات اور گوشت میں پہنچ جاتی ہے۔ اس عجیب کیفیت سے الیہاندرو راموس کا وزن 30 کلوگرام تک بڑھ گیا ہے اور انہیں شدید تکلیف ہوتی ہے جسے کم کرنے کے لیے وہ روزانہ دردکش دوائیں کھاتے ہیں۔ لوگ انہیں چلتا پھرتا غبارہ کہتےہیں اور حال ہی میں گرنے سے ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور اب وہاں دھاتی ہڈی لگانی ہوگی۔ ایک جانب تو وہ بیروزگار ہوچکے ہیں اور اب شدید درد کے شکار ہیں۔