کپتان نے ایک مرتبہ پھر اپنی ٹیم میں اہم تبدیلیوں کے ساتھ نئی صف بندی کی تیاری شروع کردی ہے، میرے گزشتہ کالم میں چار وزرا کو بری کارکردگی یا ’’خاص وجوہ‘‘ کی بنا پر کابینہ سے بے دخلی کے انکشاف کو حکمرانوں نے حقائق کے منافی اور ویسٹڈ انٹرسٹ سے تعبیر کیا تھا لیکن کپتان نے چار کی بجائے دس کھلاڑیوں کی اکھاڑ پچھاڑ کردی، مقصد تھا اِس حیران کن تبدیلی سے باقی سبق سیکھ سکیں لیکن ایسا پہلے ہوا، نہ کبھی ہوگا، لہٰذا ایک مرتبہ پھر تین سے چار مزید کھلاڑی آئوٹ ہو کر جلد پویلین جارہے ہیں تاہم چوٹ کھائے
اسد عمر کی کابینہ میں واپسی کپتان کے لئے اب بھی بڑا چیلنج ہے۔ کپتان کی ٹیم سے مایوسی اپنی جگہ، اپنے ٹارگٹس کے حصول کے لئے کی جانے والی تبدیلیوں کے لئے وہ کوئی بھی بہانہ تراشیں، حقیقت یہی ہے کہ یہ نئے پاکستان کی تعمیر کی غرض سے نہیں بلکہ بڑا مقصد غیر منتخب اور ٹیکنو کریٹس کے ذریعے ’’عوام دوست‘‘ پالیسیوں پر عمل درآمد کو ہر صورت یقینی بنانا ہے۔
اس امر کا خوفناک منظر اور عملی نمونہ تو دنیا نے اُس وقت دیکھا جب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی ڈائریکٹر لیول ٹیم کی پاکستان میں موجودگی کے دوران کپتان نے اپنی پوری معاشی ٹیم اڑا دی، پھر مذاکراتی میز کی دوسری طرف توازن کی خاطر اپنی ٹیم کے بجائے اُنہی کے فرض شناس کھلاڑیوں کو بٹھا کر میچ جیتنے کی ناکام کوشش کی۔ اب آئی ایم ایف ریفری بن کرمیدان سنبھال چکا ہے۔ نتیجتاً عوام ہار رہے ہیں اور جیت کپتان بھی نہیں رہا۔ ریفری میز پر اپنی ہر بات منوا کر اٹھ چکا ہے اور ثابت کر گیا ہے کہ وہ کپتان کا ہے نہ عوام کا، اب اس کے فیصلوں کو ماننا لازمی ہی نہیں مجبوری بھی ہے لیکن کپتان بارہا کہہ چکے ہیں کہ گھبرانا نہیں،غریب عوام بغیر گھبرائے مفت ملنے والی گرم ہوا کھائے جارہے ہیں، وہ سمجھ نہیں پارہے کہ نہ گھبرانے کی ڈیڈ لائن کیا ہے؟ کیا یہ ’’ڈیڈ‘‘ لائن تک تو نہیں ہے؟ آئی ایم ایف نے کڑی شرائط پر پاکستان کو 39 ماہ میں 6ارب ڈالر ادھار دینے کی ڈیل ڈن کردی ہے، کڑی شرائط میں سب سے اہم معاملہ ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ کے ذریعے کرانا ہے، سبسڈی کو تین برسوں میں بتدریج ختم کرنا، بجلی، گیس، تیل اور کئی بنیادی اشیاء مہنگی کرنا بینکنگ، ریونیو اور ٹیکس اہداف کی تکمیل کے لئے مشکل ترین فیصلے کرنا لازمی ہیں۔
بلاشبہ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے دعوئوں سے آنے والی حکومت نے اب تک عوام کو مشکلات میں اضافے کے جو اہداف مقرر کئے اُنہیں بآسانی پایہ تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو معلوم ہے کہ ماضی میں ہر قسم کے مصائب کا سامنا کرنے والی یہ قوم ’’کسی حال‘‘ میں گھبراتی نہیں بلکہ ہر دن شکر ادا کرنےکی عادی ہے۔ معاشی حالات پر اب تک قابو پانے میں حکومتی ناکامی پر بغلیں بجانے والی اپوزیشن آئی ایم ایف ڈیل کو پارلیمنٹ میں لانے کا تقاضا کررہی ہے لیکن ماضی میں اپنے دورِ حکمرانی کو یاد نہیں کرتی جب آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کے مرحلوں اور اُس میں طے پانے والی کڑی شرائط کو کبھی منظر عام پر نہیں لاتی تھی۔ حالانکہ اِس بار آئی ایم ایف نے بیسویں مرتبہ ادھار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ برسوں میں پیداواری صلاحیت و ہر قسم کی سرمایہ کاری میں کمی، ریونیو شارٹ فال اور اسٹرکچرل ریفارمز نہ ہونے سے پاکستان کی معیشت موجودہ حالت کو پہنچی،بہتری کے لئے تین سے پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ یہی اپوزیشن محض اپنی لیڈر شپ کو ہر قسم کی مشکل سے بچانے کے لئے عوام کا نام لیکر واویلا تو مچا رہی ہے لیکن عوام کی پچھلے نو ماہ کی چیخیں اُن کے کانوں تک شاید نہیں پہنچ پا رہیں۔
اگلے ماہ بجٹ کا مشکل ترین مرحلہ کپتان بمقابلہ عوام کا حتمی راؤنڈ ثابت ہو سکتا ہے لیکن کیا اپوزیشن اپنے مسائل سے نکل کر عوام کی دادرسی یا مدد کا کوئی راستہ نکالے گی ابھی ایسا ممکن نظر نہیں آتا، دوسری طرف دہشت گردی کی سر اٹھاتی نئی لہر بھی ایک نئی پریشانی کا باعث بن رہی ہے، لگتا ہے کپتان اپنی حکمت عملی اور ٹیم بدل کر نئے حوصلے سے اصلاحاتی وار جاری رکھیں گے۔ چند روز پہلے ایک غیر رسمی نشست میں سابق حکومت کے ایک طاقتور مشیر کیساتھ مکالمہ ہوا تو راقم نے پوچھا آپ تو بہت ماہر تھے، اپنے دور کو دودھ اور شہد کی نہروں میں بہتے زمانے سے تعبیر کرتے تھے، کیا عوام سے کچھ ہمدردی کرتے ہوئے موجودہ حالات کی بہتری کا کوئی مداوا کرسکتے ہیں، ایک کروڑ نوکریاں ملنے کے چکر میں بےروزگاری میں 30فیصد اضافے کو روک سکتے ہیں، مہنگائی میں 11فیصد اضافے کی ہوشربا رفتار پر بند باندھ سکتے ہیں، ترقی کی شرح میں تین سے چار فیصد کمی کا رجحان کم کر سکتے ہیں، 90ارب ڈالر سے بڑھتے قرضوں میں اضافے پر قدغن لگا سکتے ہیں، کوئی ہمت و استعداد نہیں تو کم ازکم کوئی مشورہ یا دعا کی صورت ہی کوئی حل تجویز کر سکتے ہیں کیونکہ اب تو میڈیا بھی مہر بلب اور زیر عتاب ہے۔ ہنسے اور بلاول کا طنزیہ جواب دہراتے ہوئے گویا ہوئے کیوں تبدیلی پسند آئی، پھر بولے ایک کبا شخص خدا سے معذوری کا روز شکوہ کرتا تھا ایک دن اللہ پاک کو ترس آیا تو اس شخص کی داد رسی کے لئے ایک فرشتہ بھیجا، فرشتے نے پوچھا آپ کی کیا مدد کروں، وہ معذور شخص کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا پورے شہر کو کبا کر دو۔ جواب تو مجھے مل گیا لیکن افسوس بھی ہوا کہ اپوزیشن کو اقتدار سے جانے کا اس قدر دکھ ہے کہ چاہتے ہیں اب پورا شہر ہی کبا ہو جائے۔ لگتا ہے عوام کی اب واحد سبیل اور امید تو کپتان ہی ہے، کپتان کو ہی سوچنا پڑے گا کہ اس بار مسلسل ہارتے عوام کو جتوا دے تاکہ ہار کے بھی کپتان کا نام تاریخ میں امر ہو جائے۔