واشنگٹن ڈی سی: عالمی خبر رساں ایجنسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دنوں وائٹ ہاؤس میں ایک خصوصی اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار زور دیتے رہے کہ مسلسل امداد اور حمایت کے عوض امریکا کو افغانستان کے وسیع قدرتی وسائل میں اپنا حصہ طلب کرنا چاہیے۔
اجلاس میں شریک ایک امریکی اہلکار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ’’روئٹرز‘‘ کو بتایا کہ اس اجلاس میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں چینی کمپنیاں کان کنی سے منافع کما رہی ہیں تو امریکا کیوں پیچھے رہے۔ اجلاس میں شریک سیکیورٹی حکام نے ٹرمپ کو جواب دیا کہ جب تک پورے افغانستان پر امریکی تسلط قائم نہیں ہوجاتا، تب تک وہاں کے قدرتی وسائل میں اپنا حصہ وصول کرنا امریکا کےلیے عملاً ممکن نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں ’’لیتھیم‘‘ نامی قیمتی دھات کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کی مالیت کا تخمینہ 1 ٹریلین ڈالر (1000 ارب ڈالر) سے بھی زیادہ لگایا گیا ہے۔ سب سے ہلکی دھات لیتھیم کی بڑھتی ہوئی معاشی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2012 کے دوران عالمی منڈی میں اس کی فی ٹن قیمت 4559 ڈالر تھی جو 2017 میں 9100 ڈالر، یعنی دوگنی زیادہ ہوچکی ہے۔
دوسری جانب امریکی فوجی دستے 2001 سے افغانستان میں تعینات ہیں اور اندازہ ہے کہ اس دوران سیکیوریٹی اور مالی تعاون کے نام پر امریکا نے افغانستان پر 750 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی ہے جس کے منفی اثرات امریکی معیشت پر پڑ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کے معاملے میں شش و پنج کا شکار ہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ وہاں فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے امریکی فوج کو وہاں سے واپس بلانا چاہتے ہیں لیکن قدرتی وسائل سے مالامال اس سونے کی چڑیا (افغانستان) کو ہاتھ سے جانے دینا بھی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ اجلاس میں انہوں نے افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے اعلیٰ ترین کمانڈر کو برطرف کرنے کا خیال بھی ظاہر کیا تھا۔