برمنگھم ( ایس ایم عرفان طاہر سے ) دی سنٹر فار ٹرسٹ پیس اینڈ سوشل ریلیشنز ، کشمیر ڈویلپمنٹ فا ئو نڈیشن ( کے ڈی ایف ) کونسیلیشن ریسورسز ( سی آر) برطانیہ کے اشتراک سے کونٹری یونیورسٹی میں Kashmir Opportunities from adversity کے موضوع پر اہم سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
جس میں بطور مہمان خصوصی ڈاکٹر غزالہ امین ، شفاعت احمد ، اے ایچ خان نے جموں و کشمیر جبکہ ڈاکٹر عطیہ انور زون ، مسعود الرحمان ڈپٹی کمشنر پو نچھ راولا کوٹ آزادکشمیر اور معروف تجزیہ نگار و سنئیر صحافی اعجاز احمد خان نے گلگت بلتستان کی نما ئندگی کرتے ہو ئے شرکت کی ۔ سیمینار کا مقصد لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیری با شندوں کے مسائل اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی کو فروغ دینا تھا۔
اس موقع پر حاجی اکرم ستار چئیرمین کشمیر ڈویلپمنٹ فائو نڈیشن ( کے ڈی ایف ) ، سردار آفتاب خان ایگزیکٹو ڈائر یکٹر کشمیر ڈویلپمنٹ فا ئو نڈیشن ( کے ڈی ایف ) ، شمس الرحمن ڈائر یکٹر پالیسی اینڈ ریسرچ کشمیر ڈویلپمنٹ فا ئو نڈیشن ، سردار ضیاء محمود کو آرڈینیٹر کشمیر ڈویلپمنٹ فا ئو نڈیشن ( کے ڈی ایف ) ، طا ہر عزیز ڈائر یکٹر سائوتھ ایشیا پر وگرام کونسیلیشن ریسورسز ( سی آر) برطانیہ، عمیہ کیلارا پر و گرام مینجر کونسیلیشن ریسورسز ( سی آر) برطانیہ،کونسلر عدالت علی ، کونسلر شوکت علی ، کونسلر رام لکھا ، کونسلر پر ویز اختر ، پر و فیسر ڈاکٹر فیض الر حمن ، ڈا کٹر مروان درویش ، اشفا ق احمد چیف ایگزیکٹو کے آئی آر ایف ، ڈاکٹر آفتاب حسین جے کے نیپ ، خواجہ زاہد لون جے کے نیپ ، چنگیز راجہ ، مہرو فٹر ، طارق خان، سریندر ناگرا ، دیو پرساد ، راشد ، اظہر علی ، میریلین ڈکسن ، روپا اے ناگاراجو ، براق اے کے ، تھامس تھرنل ریڈ ، بکرم جیت سنگھ ، تو شا چوریٹر ، رشی گپتا ، اوتا ر سنگھ جوہل جنرل سیکرٹری انڈین ورکر ایسوسی ایشن دیگر یو نیورسٹی سٹاف اور طلباء نے خصوصی شرکت کی۔
سیمینا ر کی میزبانی کے فرائض ایسوسی ایٹ پروفیسر دی سنٹر فار ٹرسٹ پیس اینڈ سوشل ریلیشنز کو نٹری یو نیورسٹی ڈکٹر سرینہ خان نے سرانجام دیے ، مقررین نے دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیری با شندوں کی حالا ت زندگی پر گہری روشنی ڈا لتے ہو ئے اپنے اپنے خیالا ت کا مثبت پہلو میں اظہا ر کیا ۔ جبکہ سمینا ر کے شرکا ء نے دونوں اطراف سے کشمیری نمائندگان کی پہلی مرتبہ مشاورت اور آپس میں ہم آہنگی کو بھرپور سراہا۔ مقررین نے اظہا ر خیال کرتے ہو ئے کہاکہ کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کے رہنے والے درحقیقت امن ، بھا ئی چا رے اور محبت کی فضاء دیکھنا چا ہتے ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ اس حوالہ سے بھا رت اور پاکستان میں ماضی قریب میں جو مثبت اقداما ت اٹھا ئے ہیں وہ قابل ستا ئش ہیں ان سے نہ صرف کشمیری عوام کے مسائل میں خا طر خواہ کمی واقع ہوئی ہے بلکہ دونوں اطراف میں ایک مو ئثر فضاء اور خو شگوار ماحول قائم ہوتا ہو ا بھی دکھائی دیا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ قدرتی آفات زلزلہ اور سیلا ب سے نمٹنے کے لیے دونوں اطراف کی آپس کی باہمی مشاورت اور خیالات کے تبادلہ سے مستقبل قریب میں بہتر نتا ئج مرتب کیے جا سکتے ہیں اس سے نہ صرف موجود ہ وسائل سے استفادہ حاصل کرتے ہو ئے اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے تجربا ت سے بھی فائد ہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔
انہو ں نے کہاکہ ماضی کے اندر سفر اور تجارت کے حوالہ سے جو پیش رفت ہوئی ہے اسکی وجہ سے کشمیر کے خطہ میں رہنے والے افراد کی حالات زندگی پر کافی گہرا ثر پڑا ہے معاشی ، اقتصادی اور ہر اعتبار سے استحکام حاصل ہو ا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ کشمیر کا تنا زعہ بلا شبہ جلد با زی کے فیصلو ں سے قابل حل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کے لیے بہتر حکمت عملی اورچھوٹی چھوٹی راہیں تلا ش کرنا ہوں گی جو اس پیچیدہ مسئلہ کے حل تک پہنچانے میں معاون و مددگار ثا بت ہوسکیں ۔ انہو ں نے کہاکہ دونوں اطراف میں ایسے پڑھے لکھے با شعور پر امن اور معاملہ فہم افراد کی آپس میں صلاح مشورہ سے ایک پر امن ماحول اور مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ کشمیری عوام اس مسئلہ کو بگاڑنے سے گریزاں ہے کیونکہ جو بیرونی قوتیں اس مسئلہ کی حساسیت سے فا ئد ہ اٹھا تے ہو ئے سازشو ں کے جال بننے میں ملوث ہیں انہیں پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کو فہم و فراست اور صبر و تحمل سے روکنا ہو گا۔ انہو ں نے کہاکہ جس طرح سے قدرتی آفات میں ایک اتحاد و اتفاد اور روادری کی فضاء قائم دکھائی دیتی ہے اسے ہی بنیا د بنا کر امن و امان اور انسانی حقوق کی بجا آوری کے لیے طوالت بخشی جا ئے اور ایک مستقل طور پر امن کی تحریک آگے بڑھا ئی جا ئے تو ممکن ہی نہیں کے دونوں اطراف سے کوئی شکا یت منظر عام پر آسکے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے بہتر مستقبل اور دیرپا امن کے لیے اپنی انا اور سیاسی مفادات کی قربانی دینا ہو گی اور تمام مذہبی اقدار اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر امن و آشتی اور استحکام کی طرف قدم بڑھا نے ہو ں گے۔