عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ کوئی کسی کو سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ اپنی بات سنوانے کے لئے آپ کے پاس ڈنڈا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ امن سے اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا، جب تک سات آٹھ بسوں کو آگ میں نہ جھونکیں۔ کوئی ریاست سے اپنے لئے بنیادی حقوق بھی مانگنے نکلے تو وہ غدار اور ملک دشمن ایجنٹ ہے۔ کوئی مذہبی انتہاپسند پر بغیر اجازت شہر کے قلب پر پندرہ بیس دن تک دھرا رہے تو خیر ہے لیکن کوئی قانون و آئین کا احترام کرتے ہوئے اجازت طلب کرے تو اجازت کسی صورت نہیں ملے گی۔ مذاکرات کے لئے بھی آپ کے پاس بندوق ہونا ضروری ہے، جن کے پاس خالی دلیل ہو، انہیں صرف دھکیں ہی ملتے ہیں۔ بہت امن سکون سے جو جلسہ کرنے والے ہوں ان کے لئے صرف گرفتاریاں ہی ہیں، اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں۔
آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کی فریاد سننے آئے تو فیض آباد آ کر دھرنا دیں، لاکھوں شہریوں کا نظامِ زندگی درہم برہم کر دیں۔ حکومت کو اور ججوں کو جی بھر کے گالیاں نکالیں، ملک گیر پرتشدد اور نفرت انگیز مہم چلائیں تو حکومت فوراََ سے پہلے گھٹنوں پر چلتے ہوئے آپ کی سننے پہنچ جائے گی۔ بلکہ ممکن ہے کہ مقتدر ادارے کے سربراہ وزیر اعظم کو فون کر کے مشورہ دیں کہ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ پھر آپ کے گرفتار لوگوں کو قومی خزانے سے ہزار ہزار روپے بھی دئیے جائیں گے اور ثالثی بھی آپ کے نکات پر کروا دی جائیگی۔ لیکن آپ صرف عقل و شعور کی دلیل سے اپنے حقوق چاہتے ہیں تو آپ کا نجام سلمان حیدر کی طرح لاپتہ ہونا یا سلیم شہزاد کی طرح پرتشدد لاش ہی ہے۔
پیر کی شب لاہور کے ایک ساتھی مقرر جو کہ پنجاب حکومت کی جانب سے خیرسگالی دورے پر بلوچستان گئے ہوئے ہیں۔ ان کا پیغام موصول ہوا کہ محترم! کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ساتھ اعشائیہ اور سوال و جواب سیشن ہے۔ اگر کوئی سوال آپ کے ذہن میں ہو تو بتا دیجئے۔ میں نے انہیں پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں سوال کرنے کا مشورہ دیا کہ ان کے مطالبات پر عسکری ادارے کیا سوچ رکھتے ہیں؟ ساتھ ہی تجویز کیا کہ ساتھ مطالبات بھی گنوا دیں۔ پہلے تو وہ کچھ ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے لیکن میرے اصرار پر وہ مان گئے۔ آگے کا احوال وہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ “وہاں ڈومیسٹک سطح کے سوالات نہیں کئے جا رہے تھے۔ صرف میں نے ہی یہ سوال کیا اور انہوں نے سب سے طویل جواب بھی میرے ہی سوال کا دیا۔ میں نے وہی سوال دہرایا جو آپ نے بتایا تھا انہوں نے جواب یہ دیا کہ فاٹا میں ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم نے خون پسینہ بہایا ہے، فاٹا میں ہم ترقیاتی کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ اسٹیٹسٹکس اور ترقیاتی پروجیکٹ بھی گنوا دئیے۔ ساتھ ہی خودکار طریقے سے تالیاں بھی بجنا شروع ہو گئیں اور وہ اگلے سوال کی جانب بڑھ گئے ۔” اور میں بس ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔ تقریباََ وہی صورت حال رہی جو میں تصور کر رہا تھا۔
بقول شاعر،
یہاں رواج ہیں زندہ جلا دئے جائیں
وہ لوگ جن کے گھروں سے دئیے نکلتے ہیں
لاہور موچی گیٹ پر پی۔ ٹی۔ ایم نے جلسے کا اعلان کیا تو پنجاب میں عجیب غدر کا سا ماحول بن گیا۔ جلسے سے ایک روز قبل پی۔ ٹی۔ ایم کے رہنما علی وزیر، اے۔ ڈبلیو۔ پی۔ کے صدر فانوس گجر اور عصمت شاہ جہاں کو پنجاب پولیس نے گرفتار کر لیا۔ عصمت شاہجہاں کے لئے گرفتاری کوئی نئی چیز تو رہی ہی نہیں تھی، ڈکٹیٹر کے آگے نہ جھکنے پر وہ پہلے بھی قید و بند کی صوعبتیں کاٹ چکی ہیں۔ وہ پنجاب حکومت جو خود اظہار رائے پر پابندی کا رونا تو روتی ہے اور اپنے خلاف آنے والے فیصلے پر ایک ریفرنڈم کی تحریک بھی چلا رہی ہے۔ اسے پشتونوں کا حق آزادی رائے سلب کرتے ہوئے ذرا جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود بھی پی۔ ٹی۔ ایم نے ایک جلسہ کیا اور بہت ہی کامیاب جلسہ کیا۔ حاضرین بتاتے ہیں کہ وہاں موجود عوام میں سے زیادہ تر طلباء و طالبات تھے۔ جو کہ وہاں صرف یہ جاننے کے لئے آئے تھے کہ پی۔ ٹی۔ ایم ہے کیا؟ اس تحریک کا موٹو کیا ہے۔
اس جلسے میں جانے والوں میں عمار علی جان جیسے مفکر بھی تھے۔ وہی عمار علی جان، جن کو طلباء میں پی۔ ٹی۔ ایم کے حوالے سے آگہی پھیلانے پراسلامی جمیعت طلباء کے دباؤ پر نکال دیا گیا تھا۔ اسی عمار علی جان کو یہ دھمکیاں بھی ملتی رہیں کہ تمہیں مشعال کی طرح عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ لیکن وہ دیوانہ باز نہیں آیا۔ اور افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ پولیس ان شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے تو باز رہی۔ خیر، انہیں عمار علی جان کی زوجہ جو کہ امریکی نژاد ہیں، اس جلسے میں موجود تھیں۔ جن کی تصاویر سوشل میڈیا پر رقص کرتی رہیں اور امریکی ایجنٹ ہونے کا لقب بھی سنتی رہیں۔ پشاور کے جلسے کی طرح اس دفعہ بھی میڈیا نے اس جلسے کو بلیک آؤٹ کیا اور جن نادیدہ قوتوں کے حکم پر کیا دنیا جانتی ہے۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو سننے کے بجائے اس کے مقابلے پر ایک پاکستان زندہ باد تحریک شروع کر دی گئی ہے۔ اس تحریک کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی، نہ ہی اس کی کوئی منطق سمجھ آئی۔ پی۔ ٹی۔ ایم نے ریاست کے خلاف تحریک کا آغاز تو نہیں کیا۔ یہ تحریک تو بس ریاست کے کچھ اداروں کی ناانصافیوں پر ریاست سے شکوہ کناں ہے۔ ضروری ہے کہ ان لوگوں کی فریاد و آہ و بکاہ سن لی جائے۔
فوج نے پہلے بہت اچھے اقدام کئے، ان نوجوانوں کو انگیج کیا۔ ان کو سنا۔ ان کو مطالبات پر عمل کا یقین بھی دلایا۔ لیکن اچانک ہی آرمی چیف کی جانب سے ایک بیان کے بعد حالات دوبارہ بگڑ گئے۔ اور ایک ناگہانی سی صورت حال کی جانب روا دواں ہیں۔ اب لیفٹیننٹ نذیر بٹ نے ایک اور بیان میں کہا کہ منظور ہمارا بچہ ہے اس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اگر کہیں بھی فوج کی غلطی اور کوتاہی ثابت ہوئی تو اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ یہ بیان ایک خوش آئند بات ہے۔ کیونکہ پانی ابھی بھی پلوں سے گزرا نہیں ہے۔
اگر ہم نے وہی ہتھکنڈے آزمائے کہ جو آواز بلند کرے، وہ آواز دبا دو، جو سوال کرے، چپ کروا دو، جو اختلاف کرے اسے جلا دو۔ تو یہ ریاست کو انتشار کی جانب لے کر بڑھے گا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کبھی سیکھنا گوارا ہی نہیں کی۔ مجیب الرحمان 6 نکات پیش کرنے کے بعد جب لاہور آئے تھے تو افتخار احمد کی ان سے ملاقات ہوئی تو مجیب الرحمان نے کہا تھا کہ ان 6 نکات پر بالکل بات ہو سکتی ہے، ہم تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن جب جلسے میں جماعت کے کارکنان کی جانب سے مجیب الرحمان پر پتھر برسائے گئے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اب مولانا مودودی کا جہاز ڈھاکہ ائیر پورٹ پر لینڈ نہیں کر سکے گا۔ اس واقعے کے بعد بھی وہ مذاکرات پر نیم رضا مند تھے لیکن جب بنگال میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو حالات مجیب کی پہنچ سے باہر ہو گئے اور وہ بالآخر غدار ٹھہرے۔
قدرت کا اصول ہے کہ احساس کمتری کو توجہ نہ دی جائے تو وہ آہستہ آہستہ غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور وہ غصہ آخر میں نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم نے بطور معاشرہ منظور کی آواز پر کان نہیں دھرے تو اب اس تحریک میں دکھ کی جگہ غصے نے لے لی ہے۔ ان کے مؤقف میں آہستہ آہستہ سختی آتی جا رہی ہے۔ لہجہ بھی بدلتا جا رہا ہے۔ کیونکہ اب طاقت کا احساس صرف ان کے مقابل لوگوں کو نہیں ہے، پی۔ ٹی۔ ایم کو بھی ہے۔ ضروری ہے کہ ادارے ہوش کے ناخن لیں۔ ان لوگوں کی شکایات سنیں اور انہیں دور کریں کیونکہ وہ سب بھی پاکستانی ہیں اور پاکستان کا اثاثہ ہیں۔
یہ تحریک کچھ شر پسند عناصر سے ہائی جیک ہوتی نظر آتی ہے۔ محمود خان اچکزئی اور اشرف غنی جیسے لوگ اپنے مضموم مقاصد کے لئے اس تحریک کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہئے کہ اس ملک کو چلانے والے لوگ نوجوان ہیں۔ وہ لوگ بھی اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، جس سے وہ پچھلے 70 سال سے محروم ہیں۔ ان کی محرومیوں کو بالآخر اگر آواز مل گئی ہے تو اس آواز کا گلہ مت دبائیں مت بلکہ اس کو سنیں۔ اور ان کو یقین دہانی کروائیں کہ یہ پاکستان جتنا ہمارا ہے۔ اتنا ان کا بھی ہے ۔ تاکہ جو ملک میں ایک اضطراب کی کیفیت بن چکی ہے۔ اس کاخاتمہ ہو۔ اس سیاہ اندھیرے میں عاطف توقیر کی نظم ‘چپ’ شدت سے یاد آتی ہے۔
خاموشی پہنا کر بھیجا جانے والا!
میں گم سم ہوں
دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
افسردہ ہوں
کس مٹی سے وابستہ ہوں
کون سی دھرتی کا بیٹا ہوں
میرے جسم پہ میرے سچ کو
داغ دیا ہے
میری روح
کو چھلنی کر کے
مجھ پر غداری لکھا ہے
گستاخ و باغی لکھا ہے
میری آنکھوں میں آنسو ہیں
زخمی آنسو
مجھ پر درد اتارنے والے
مجھ پر خوف گزارنے والے
غیر نہیں تھے
میری اغوا کار
میری اپنی مٹی تھی
میری آوازوں کو چھیننے والے
میری سوچیں نوچنے والے
بھی اپنے تھے
میں صبح کے خواب کی خاطر
رات کی چھاؤنی جا نکلا تھا
گھور اندھیروں کے آنگن میں
سچ کے دیپ جلانے والا
اندھریاروں کی قوم
کو لاحق اک خطرہ تھا
سوچوں کے دروازے کھولنا غداری ہے
اور میں باغی
بول رہا تھا
اب میں چپ ہوں
دھک رہا ہوں
لیکن میرے ہر گھاؤ پر
سچ لکھا ہے
اور وہ سچ بول رہا ہے
پر میں چپ ہوں