لاہور (ویب ڈیسک) نایاب علی کو جب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے خواجہ سراؤں کے لیے مختص کیے گئے دو کمروں کی تصویریں دکھائیں تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائیں۔ انھوں نے ایک ایک کرکے اپنے سارے دوستوں کے نام لیے جو ہسپتالوں میں کمرہ نہ ملنے کی وجہ سے یا تو دم توڑ گئے نامور خاتون صحافی سحر بلوچ بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔یا پھر علاج کا خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے مفلسی کی بیمار زدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں خواجہ سراؤں کے لیے دو کمرے مختص کرنے کے عمل کو جہاں سراہا گیا وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ الگ کمروں کے ذریعے ان کو باقی مریضوں سے دور تو نہیں کیا جارہا ہے؟ خواجہ سراؤں سے بات کرتے ہوئے یوں ہوا کہ انٹرویو کے لیے مارگلہ کی ٹریل فائیو پر جگہ ڈھونڈتے ہوئے جب ہم ایک جگہ پہنچے تو ہمیں وہاں موجود ریستوران کے مالک نے یہ کہہ کر بیٹھنے سے منع کردیا کہ ’یہ تو ان لوگوں کا روز کا ڈرامہ ہےـ آپ پلیز انھیں کہیں اور لے جائیں۔‘ جس پر میرے ساتھ کھڑی ڈیزی نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ بھی یہ روز ہوتا ہے۔ لیکن کم بخت ذلیل ہونے کی عادت ہوگئی ہے۔‘خواجہ سراؤں کے لیے الگ کمروں کے بارے میں جب پمز کے ایک سینیئر ڈاکٹر سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’الگ وارڈ یا کمرے اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ لوگ خواجہ سراؤں کو تسلیم تو کریں۔ ہسپتالوں میں تو ان کی موجودگی ہی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایسا نہ ہو۔‘ چندا حال ہی میں لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوئی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ’ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر جنرل وارڈ میں ہمیں رکھا جاتا ہے تو ساتھ والے بیڈ پر موجود مریض یا ان کے لواحقین ہم پر جملے کستے ہیں اور نرس کے آنے پر کہتے ہیں کے اسے یہاں سے لے جاؤ۔ اس اقدام سے ہمیں یہ تسلی ملتی ہے کہ ہمیں تسلیم کیے جانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔‘ اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی ڈیزی نے کہا کہ انھیں لوگوں کے دلوں میں جگہ چاہیے۔ ’ہمارے لیے کمرے بیشک بنائیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہمارے لیے لوگ اپنے دل میں جگہ بنائیں گے۔ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ ہمیں دل میں جگہ ہی نہیں دیتے۔ ہم ہسپتال جاتے ہیں تو ہم سے کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ ہم دوا لینے کے بجائے الٹا افسردہ ہوکر واپس گھر جاتے ہیں۔‘پمز انتظامیہ کے مطابق ہسپتال میں خواجہ سراؤں کا مفت علاج اور میڈیکل ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ اس اقدام کی وجہ ایک حالیہ واقعہ ہے جس میں روشنی نامی ایک خواجہ سرا سے ایک ہسپتال کے عملے کے برے برتاؤ کی وڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہوگئی۔ پمز انتظامیہ کے مطابق واقعے کی اطلاع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق، شیریں مزاری نے نوٹس لیتے ہوئے خواجہ سراؤں کے لیے الگ کمرے بنوانے کا اعلان کیا تھا۔ نایاب اس وقت روشنی کے ساتھ تھیں اور انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم سب بروقت شور نہیں مچاتے تو آج ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی الگ کمرے بنوانے کی بات پر کوئی عمل ہوتا۔‘ روشنی کو آخری سٹیج کا کینسر ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کا علاج کرنے سے انکار کردیا۔ بہت سے خواجہ سرا مانتے ہیں کہ اکثر فائنل سٹیج کینسر میں مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا لیکن ’جس طرح سے ہمیں رسوا کیا جاتا رہا ہے اور اس دن بھی کیا گیا، اس رویے کو بدلنا ہوگا۔‘ خواجہ سرا پاکستان کے چند غیر محفوظ طبقوں میں سے ایک ہیں جن پر حملوں کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ خواجہ سراؤں کی آبادی کی حوالے سے مختلف اعداد و شمار زیرِ بحث رہتے ہیں جن میں سے اکثر سے خود ان کی برادری بھی اتفاق نہیں کرتی۔ان میں سے ایک پاپولیشن اینڈ ہاؤسنگ سکیم کے سنہ 2017 کے اعداد و شمار ہیں جن میں ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی تعداد صرف 10000 بتائی گئی ہے۔ اس بات پر خواجہ سراؤں کا ماننا ہے کہ ان کی صرف اسلام آباد اور راولپنڈی میں 6000 آبادی ہے۔اب تک پمز اسلام آباد کا پہلا ہسپتال بتایا جارہا ہے جہاں کے پرائیویٹ وارڈ کے 19 کمروں میں سے دو کمرے خواجہ سراؤں کے لیے رکھے گیے ہیں۔ اور کہا جارہا ہے کہ باقی صوبوں میں بھی اسی طرح کی کاوش کی جائے گی۔ایک اور خواجہ سرا حسنہ نے کہا کہ ’آخرکار ہم جانوروں کی فہرست سے نکل کر اب انسانوں کی فہرست میں شامل ہورہے ہیں۔