پاکپتن(ویب ڈیسک)پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر پاک پتن کے علاقے عارف والہ کے رہائشی محمد فیاض نے آرمی چیف سے اپیل کی ہے کہ اُنھوں نے مقامی طور پر جو جہاز تیار کیا ہے وہ پولیس کی تحویل سے لے کر اُنھیں واپس کیا جائے۔اُنھوں نے کہا کہ اس ملک میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے خلاف مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔واضح رہے کہ مقامی پولیس نے جہاز تیار کرنے اور اڑانے پر محمد فیاض کے خلاف مقدمہ درج کرکے اس کا جہاز قبضے میں لے لیا ہے اور مقامی عدالت نے ملزم کو تین ہزار روپے کا جرمانہ کرکے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ نامعلوم مقام سے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک سے گفتگو کرتے ہوئے محمد فیاض نے کہا کہ انھوں نے جہاز کی تیاری کے سلسلے میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے علاوہ انٹیلیجنس بیورو اور پولیس حکام کے دفاتر کے چکر بھی لگائے لیکن اُنھوں نے اس کا مذاق اڑایا۔اُنھوں نے کہا کہ جب اُنھوں نے جہاز تیار کرلیا اور اس کی آزمائشی پرواز کی اجازت لینے کے لیے بھی متعقلہ حکام سے رابطہ کیا تھا تاہم اُنھیں اس ضمن میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔اُنھوں نے کہا کہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اُنھوں نے نہ صرف اپنی زمین بیچی بلکہ بینک سے 50 ہزار روپے قرضہ بھی لیا ہے جس کا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے۔محمد فیاض ایک ریڑھی بان ہیں۔ صبح کے وقت وہ ریڑھی چلاتے ہیں جبکہ گھر کے اخراجات چلانے کے لیے وہ رات کو ایک کمپنی میں سکیورٹی گارڈ کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ محمد فیاض کے بقول وہ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور گھر کو چلانے کے لیے اُنھیں ریڑھی چلانا پڑی۔محمد فیاض انڈر میٹرک ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جہاز بنانے کا شوق اُنھیں بچپن سے تھا اور اُنھوں نے اس ضمن میں کسی سے کوئی تربیت حاصل نہیں کی۔ محمد فیاض کا کہنا ہے کہ انھیں اس جہاز کو بنانے میں پانچ ماہ کا عرصہ لگا اور اس پر ان کے مجموعی طور پر اخراجات 90ہزار کے قریب آئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ جہاز اب مقامی تھانے میں رکھا ہوا ہے اور جس انداز میں اس جہاز کو رکھا گیا ہے اور پولیس اہلکار جس طرح مبینہ طور پر جس انداز میں اس کی حفاظت کر رہے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ان کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔مقامی علاقے کے سب ڈویژنل پولیس افسر نصر اللہ نیازی نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی عدالت محمد فیاض کو مجرم قرار دے چکی ہے اس لیے یہ جہاز مال مقدمہ کا حصہ ہے اس لیے اب اس جہاز کو واپس نہیں کیا جائے گا۔اُنھوں نے کہا کہ ملزم فیاض نے جہاز اڑا کر نہ صرف اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا جبکہ دیگر افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے سے دوچار کیا۔ایس ڈی پی او کے مطابق فیاض اس سے قبل اسلام آباد میں جہاز اڑانے کا مظاہرہ کرچکا ہے جبکہ فیاض پولیس افسر کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔دوسری طرف ڈسٹرکٹ پولیس افسر ماریہ محمود کا ایک ویڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ملزم فیاض نے جہاز کی تیاری اور پھر اس کو اڑانے کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے این او سی حاصل نہیں کیا تھا۔اُنھوں نے کہا کہ چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اس جہاز کو اڑانے سے یہ تاثر بھی مل سکتا ہے کہ ایسے جہازوں کو جاسوسی اور دہشت گردی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔