لاہور (ویب ڈیسک) بدقسمتی سے پاکستان کی مہار اِن دنوں غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حکمرانی دنیا کا سنجیدہ ترین کام ہے تو خارجہ معاملات اُس کا سب سے سنجیدہ اور حساس شعبہ، جو سب سے زیادہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔خارجہ پالیسی میں یوں تو دنیا کے ہر ملک کے ساتھ تعلقات کی اپنی اپنی اہمیت ہوا کرتی ہے لیکن پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات زیادہ ذمہ داری کے متقاضی ہوتے ہیں۔ پھر پڑوسی ممالک کی فہرست میں ایران کے ساتھ تعلقات کا معاملہ سب سے زیادہ نازک اور حساس ہے، جو سب سے بڑھ کر ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ وجہ اُس کی یہ ہے کہ ایران ایک اسلامی ملک ہے، جس سے متعلق پاکستان کے ایک مذہبی طبقے کی اپنی حساسیت ہے لیکن دوسری طرف وہ پاکستان کے سب سے بڑے حریف یعنی انڈیا کا قریبی دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے لیکن دوسری طرف پاکستان ایران کے سب سے بڑے حریف یعنی سعودی عرب کا قریبی دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ ایران نے پاکستان کی سرحد کے قریب چابہار میں انڈیا کو کردار دے رکھا ہے اور اب پاکستانی سائیڈ پر گوادر میں سعودی عرب سرمایہ کاری کرنے آرہا ہے۔ بدقسمتی سے اِن دنوں ایران اور سعودی عرب کی پراکسی وار بھی زوروں پر ہے جبکہ پاکستان اور انڈیا کی پراکسی وار تو ہمہ وقت زوروں پر رہتی ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ایرانی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی جبکہ ایران مخالف عناصر نے بھی اِس کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی کوشش کی، تاہم سرزمین کے استعمال ہونے کی مختلف نوعیتیں ہوا کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اِن عناصر نے وہ سرزمین اُس ریاست کی سرپرستی میں استعمال کی ہے یا پھر اُس کے بغیر۔ ایران کے بارے میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُس کے خلاف پاکستانی سرزمین کے استعمال میں کبھی پاکستانی ریاست ملوث نہیں رہی۔ جنداللہ اور جیش العدل نے اگر پاکستانی سرزمین سے اُن کے خلاف کارروائیاں کی ہیں تو پاکستانی ریاست نے نہ صرف اُن لوگوں کے خلاف کارروائیاں کیں بلکہ اُن کے ہاتھ جو افراد آئے، اُن کو گرفتار کر کے ایرانی حکومت کے حوالے بھی کیا ہے۔ اِسی طرح ماضی میں الزام لگتا رہا کہ عبدالمالک ریگی پاکستان میں ہے لیکن پھر جب اسے ایرانی حکومت نے گرفتار کیا تو پتا چلا کہ وہ کابل میں قیام کے بعد ہوائی جہاز میں بیرون ملک جارہے تھے جبکہ اُس کے برعکس ایران نے کبھی پاکستان کو مطلوب افراد اپنی سرزمین سے گرفتار کر کے حوالے نہیں کئے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب کی طرح ایران نے بھی پاکستانی شہریوں کو اپنا پراکسی بنانے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے یہاں فساد برپا ہوتا رہا لیکن جس طرح جواب میں پاکستان نے کبھی سعودی شہریوں کو اپنا پراکسی نہیں بنایا، اِسی طرح پاکستان نے کبھی ایران کے اندر ایرانی شہریوں کو بھی اپنا پراکسی بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اِسی طرح ایران کے جو علاقے پاکستان کے خلاف استعمال ہوئے اور ہو رہے ہیں، وہاں پر ایرانی حکومت کی گرفت نہایت مضبوط ہے اور حکومتی اجازت یا چشم پوشی کے بغیر سرگرمیوں کا ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن ایران کے خلاف پاکستان کے جو علاقے استعمال ہوئے وہاں پاکستانی حکومت کی رِٹ آج بھی نہایت کمزور ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں پاکستانی فورسز کو مسلسل آپریشن کرنا پڑرہے ہیں۔ پاکستان کی طرف بلوچستان میں حکومت پاکستان کو جن چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے، وہ ایرانی حکومت کو اپنے صوبوں میں قطعاً نہیں۔ وہاں ایرانی حکومت کی رِٹ خاصی مستحکم ہے۔ اِس تناظر میں دونوں کے شکوے شکایات بجا ہیں اور دونوں حکومتوں کا فرض ہے کہ اُن کو دور کریں لیکن دونوں کو یکساں قصور وار قرار دینا قطعاً قرین انصاف نہیں۔ یوں دونوں کو اگر غیر بھی یکساں قصوروار قرار دیں تو مناسب نہیں لیکن یہاں تو پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے دونوں کو یکساں ذمہ دار قرار دیا۔ ایرانی صدر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اُنہوں نے یہ غلط اعتراف کر ڈالا کہ پاکستانی سرزمین پر موجود گروہ ایران کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں حالانکہ اِن عناصر نے پاکستانی سرزمین سے کارروائیاں تو کی ہیں لیکن پاکستانی سرزمین پر اُن کے باقاعدہ ٹریننگ کیمپس ہیں اور نہ ٹھکانے۔ دوسری طرف ایران روانگی سے دو روز قبل عمران خان صاحب کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایرانی حکومت سے یہ کہہ کر احتجاج کر چکے تھے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ایران میں باقاعدہ کیمپ موجود ہیں۔ ایک طرف وزیر خارجہ نے وزیراعظم کے دورے سے صرف دو روز قبل نامناسب طریقے سے ایران کے خلاف پریس کانفرنس کر ڈالی اور دوسری طرف وزیراعظم نے ایران جا کر پاکستان کو ایران کی طرح یکساں مجرم قرار دیا۔ آخر یہ کیا تماشہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک طرف وزیراعظم صاحب پر اِن حساس معاملات سے متعلق عالمی فورمز پر زبانی تقاریر کرنے کا خبط سوار ہے اور دوسری طرف وہ ان کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے۔ اِس لئے جب بھی زبان کھولتے ہیں، کوئی نہ کوئی مشکل کھڑی کر دیتے ہیں ۔ پہلے افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور پھر اُس کے لئے بچوں کی طرح ضد کی۔ چنانچہ طالبان کی طرف سے انکار کی وجہ سے ایک طرف پاکستان کی سبکی ہوئی اور دوسری طرف طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے۔ پھر افغانستان میں عبوری حکومت سے متعلق بیان داغ دیا جس کی وجہ سے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے۔ پھر مودی کے دوبارہ وزیراعظم بن جانے کی صورت میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا تجزیہ پیش کیا۔ غرض جب بھی زبان کھولتے ہیں تو کوئی نہ کوئی گل کھلاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کہیں اس غیرذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے یہ حکومت سیکورٹی رسک تو نہیں بن رہی؟ یہ صرف ایران، افغانستان اور ہندوستان کے معاملات نہیں۔ امریکہ تقاضا کررہا تھا کہ سی پیک کے معاہدات کی تفصیلات اس کو بتادی جائیں لیکن پاکستان انکار کرتا رہا۔ اب ایسے شخص پاکستان کے وزیر خزانہ بن گئے کہ جن کی بیوی امریکی ہیں اور اولاد بھی وہیں مقیم ہے۔ وہ صرف حکومت کرنے پاکستان آتے ہیں۔ وزیر خزانہ کے بچے امریکی اور وزیراعظم کے بچے برطانوی۔ یہ ہے نیا پاکستان، سوال یہ ہے کہ کہیں یہ سیٹ اپ سیکورٹی رسک تو نہیں بن رہا۔ غداری کے فتوے بانٹنے والے پاکستان کی سیکورٹی کے ذمہ داروں نے کیا کبھی اس پہلوپر بھی غور کیا ہے؟