لاہور: قوم یوم آزادی پاکستان کے سلسلے میں آزادی کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن ایسے میں پاکستان سٹیٹ آئل کو شہری نے ایسا کام کرتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا کہ ملازمین کو ہاتھ جوڑ کر اپنی جان بخشی کرانا پڑگئی۔
تفصیلات کے مطابق قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ کے قریب پیکو موڑ پر موجود پاکستان سٹیٹ آئل ( پی ایس او) کے پٹرول پمپ پر معمول کی مطابق شہری پٹرول ڈلوانے میں مصروف تھے، ایک موٹرسائیکل سوار نے 200 روپے کا پٹرول ڈلوایا لیکن اسے ناپ تول میں کمی کا شک پڑا تو موٹر سائیکل سوار نے بحث کرنے کی بجائے موٹر سائیکل پٹرول پمپ کے ایک کونے میں کھڑی کی اور ایک ڈیڑھ لٹر کی بوتل میں پٹرول نکالناشروع کردیا۔
تھوڑی ہی دیر میں موٹرسائیکل کے ٹینک سے پٹرول نکل چکا تھا لیکن پٹرول کی جو مقدار ”بازیاب“ ہوئی، وہ شاید عملے کی طرف سے وصول کی گئی رقم سے بہت کم تھی ۔ جب پی ایس او کے اس فیول یونٹ پر موجودکیشئر کو شکایت کی گئی تو اس نے واپس یونٹ پر آنے اور وہیں پر موجود فیول ڈالنے والے لڑکے کی موجودگی میں بات کرنے پر موٹر سائیکل سوار کو راضی کر لیا اور یونٹ پر پہنچتے ہی بات کرنے کی بجائے مبلغ 150 روپے کا مزید پٹرول ڈال دیا گیا، اسی دوران وہ کیشئر یونٹ سے غائب ہوگیا۔ شہری کا کہنا تھا کہ 96 روپے فی لٹرپٹرول ہے، یوں 200 روپے کا پٹرول ڈلنے پر ڈیڑھ لٹر کی بوتل بھر جانا تھی لیکن یہ آدھی ہی نہ ہوئی، اس دوران پٹرول ڈالنے والا وہ ملازم ڈھٹائی کے ساتھ منہ دیکھتا رہا۔
صارفین نے بتایاکہ یونٹ کی ایل ای ڈی لائیٹ خراب ہے جس کی وجہ سے میٹر میں جھانک کر دیکھنا پڑتاہے لیکن اب کی بار پٹرول ڈالنے والے چور لڑکے نے یہ نوبت بھی نہ آنے دی اور فیول نوزل اس یونٹ تک واپس لے جانے سے قبل ہی ہاتھ مار کر میٹر کلیئرکردیا تھا۔ایک سوال کے جواب میں موٹرسائیکل سواروں نے بتایا کہ پیکو موڑلاہور پر موجوداس پی ایس او کے پٹرول پمپ پر رش نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے پٹرول ڈلوالیتے ہیں لیکن آج یہ سب آشکار ہوگیا کہ یہاں سے اکثریت عوام پٹرول کیوں نہیں ڈلواتے ، میٹر تو سب کے سامنے ہے لیکن مشین کی ناپ تول کا کسی کومعلوم ہی نہیں کہ اس کھاتے میں کتنا پٹرول چوری کررہے ہیں۔
تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ صرف وہاں کے پٹرول ڈالنے والے کا جرم نہیں بلکہ کیشیئر اور پٹرول پمپ کی ساری انتظامیہ ہی چور ہے، کوئی منیجر بیٹھتا ہے اور نہ کوئی اور ذمہ دار شخص، پانچ کا پٹرول ڈال کر پچاس روپے چوری کرکے اکٹھے کر لیتے ہیں اور ممکنہ طور پر اس میں پی ایس او کے متعلقہ حکام کا بھی حصہ ہے یا کم از کم ان کے علم میں ہے۔