پاکستان بھر میں ڈیم فنڈ کیلئے رقوم جمع کروانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ابھی بھی ہم مقررہ اہداف سے بہت دور ہیں۔ ایسے میں ایک شخص نے ڈیم 2 روپے 40 پیسے میں بنانے کا فارمولا بتا دیا۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک شخص کا کہنا ہے کہ ڈیم 2 روپے 40 پیسے میں بھی بنایا جا سکتا ہے۔ہمیں ڈیم کی تعمیر کے لیے 14سو ارب روپے چاہئیں لیکن یہ ہمیں اکٹھی نہیں چاہئیے بلکہ اس کے لیے 8 سال درکار ہیں۔ ایک سال میں جو رقم بنتی ہے وہ 175 ارب روپے بنتی ہے۔اگر اس رقم کو 20 کروڑ عوام سے تقسیم کیا جائے تو یہ صرف 875 روپے بنتے ہیں اور یہ رقم سال بھر میں چندہ دینی ہے تو اگر اسے سال کے 365 دنوں پر تقسیم کیا جائے تو یہ 2 روپے 40 پیسے بنتے ہیں۔اس لیے ہر چار دن بعد اہل خانہ کے ایک فرد کو دس دس روپے کا ڈیم فنڈ کے لیے میسج کرنا چاہیے۔مذکورہ شخص کے فارمولے پر لوگوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق ڈیم تو انشاء اللہ بن ہی جائیگا کہ حکومت کا عزم ہے‘ قوم کی خواہش اور پاکستان کو ہمیشہ دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے والے ربّ کی رضا۔کون سے سیاسی‘ معاشی اُصول اور بین الاقوامی عوامل قیام پاکستان کی تائید کرتے تھے؟ طاقتور انگریز اور سیاست و معیشت کے سر چشموں پر قابض ہندو خلاف تھا‘ ماہرین معیشت اسے دیوانے کا خواب قرار دیتے اور مسلمان جاگیردار‘ بیشتر مذہبی رہنما اور سیکولر دانشور قائد اعظمؒ کے دشمن ۔مگر سات سال کی قلیل مدت میں یہ منصۂ شہود پر آ گیا۔ ساری منطق اور مخالفت دھری کی دھری رہ گئی۔1996ء میں تحریک انصاف بنی تو کون سوچ سکتا تھا کہ لاابالی کرکٹر جوڑ توڑ کے ماہر آصف علی زرداری اور سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ کے رگ و پے میں پیوست پنجوں والے نواز شریف کو چاروں شانے چت کر کے وزیر اعظم بن جائیگا۔جس شخص کی جماعت 2002ء کا الیکشن ہارنے کے بعد اپنے مرکزی دفتر کا کرایہ دینے کے قابل نہ تھی اور دو اڑھائی سال بعد اس کی بیوی نے رشتہ توڑ لیا کہ سیاست میں مسلسل ناکامی کے بعد وہ اسے برطانیہ میں بسانے کے درپے تھی ‘آج تین صوبوں اور وفاق میں اس کی حکومت ہے۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے رفاہی اداروں کی کامیابی اور ملک میں تحریک انصاف کی حکمرانی سے کیا سبق ملتا ہے؟ وہ کون سا عقدہ ہے جو واہو نہیں سکتا۔۔۔۔ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا۔۔۔۔کسی زمانے میں پاکستان کی معاشی حالت چین‘ کوریا‘ سنگا پور اور ملائشیا سے بہتر تھی اب کیوں نہیں ہو سکتی‘ کیا ہماری مائوں نے ذہین بچے جننے بند کر دیے ہیں‘ دریا خشک ہو گئے‘ زمینیں بنجر ہیں اور قوم بھنگ پی کر سو گئی ہے۔ صرف لیڈر شپ کا قحط تھا جس نے پاکستان کو مقروض اور مفلوک الحال کیا اب شائد اللہ تعالیٰ کو ہم پر رحم آ گیا ہے۔عمران خان نے پاکستان کے عوام اور بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم فنڈمیں عطیات کی اپیل کیا کی صرف تحریک انصاف نہیں‘ پاکستان کے روایتی مخالفین اور ہر اچھے کام میں کیڑے نکالنے والے دانشور بھی یہ ثابت کرنے پر تل گئے کہ یہ ناممکن ہے۔ ان میں سے کسی کو احساس نہیں کہ آج تک ان کا ہر منصوبہ ‘ اندازہ اور تجزیہ ناکامی سے دوچار ہوا۔بعض تو ایسے ہیں جن کے غلط تجزیوں اور اندازوں کا مشاہدہ قوم نے صرف ایک پانچ ہفتے قبل 25جولائی کو کیا‘ مگر ڈھیٹ یہ ایسے ہیں کہ ایک بار پھر قوم میں مایوسی پھیلانے اور ہونی کو انہونی ثابت کرنے میں مشغول ہیں ‘نہیں سوچتے کہ ایک بار پھر شرمندگی ان کا مقدر ہے۔ ہر منطق ‘ استدلال ‘ اندازے ‘ تجزیے ‘ خواہش اور فزیبلٹی کے بغیر پاکستان بن گیا۔ شوکت خانم ہسپتال بن گیا‘ عمران خان حکمران بن گیا۔ بیس کروڑ عوام کا عزم اور لاکھوں خوشحال پاکستانیوں کا جذبہ خیر و حب الوطنی ایک ‘ دو ‘ تین ڈیم کیوں نہیں بنا سکتا؟۔ جن احمقوں کو یہ بھی یاد نہیں کہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے چودہ ارب ڈالر ایک ہفتے ‘ مہینے یا سال کے عرصے میں درکار نہیں‘تعمیر کی مدت کم و بیش سات آٹھ سال ہے‘ وہ بھی زبان درازی کر رہے ہیں اور جمع تفریق کے بعد قوم کو بتا رہے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے فنڈ میں دو ماہ کے دوران صرف دو ارب روپے جمع ہوئے انہیں کون بتائے کہ ان کے اپنے دور حکمرانی میں جو (پیپلز پارٹی مسلم لیگ) دس سال پر محیط ہے ڈیم پر کتنا خرچ ہوا؟ اور لاگت میں اضافہ کس کی مجرمانہ غفلت سے ہوا؟اسباب ضروری ہیں‘ مگر نظر ہمیشہ مسبب الاسباب پر رہنی چاہیے۔ قائد اعظم کواگر کوئی عاطف میاں‘ عاصم اعجاز خواجہ اور عمران رسول جیسا یقین کی دولت سے محروم ماہر معیشت یہ کہتا کہ اول تو پاکستان بن نہیں سکتا‘ بن گیا تو چل نہیں سکتا تو ان ڈیم مخالف مجہولوں کے خیال میں وہ باز آ جاتے؟۔ ہرگز نہیں‘ خدائی فرمان یہ ہے کہ فاذ اعزمت فتوکل علی اللہ۔ جب ارادہ کر لیا تو پھر اللہ پر بھروسہ کروقائد اعظم اللہ پر بھروسہ کرنے والے تھے کامران رہے۔ہم میں سے اکثر کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان تو لائے مگر بھروسہ نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ بھروسہ ہمیں اپنے آپ پر بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ بلکہ دوسروں کے خیالات و تصورات کی جگالی کرنے والے کسی چرب زبان ‘نوسر باز اور بہروپئے کے سہارے ہم تعمیر و ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔