counter easy hit

ایہہ نگری داتا دی

شہر لاہور کے روشن ماتھے پر بہت سے اعزازات اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہیں۔ سماجی، سیاسی، معاشرتی غرضیکہ ہر حوالے سے یہ شہر ایک خاص پہچان کا حامل ہے۔ اس کے دِل کی دیواروں پر بے شمار خوشگوار منظروں اور تلخ حقائق کی دستاویز آویزاں ہیں۔ یہ عہد حاضر کو گاہے بگاہے اپنے بیتے کل سے روشناس کرانے کے لئے انہیں باطن کی طرف کھلنے والے تہہ خانوں کی طرف پیش قدمی کرتا رہتا ہے۔ زندگی کا روشن پہلو دیکھنا اور دکھانا اس کی خصوصیت ہے۔ دُکھوں، آہوں اور آنسوئوں کے دھواں دھار طوفان کو ٹال کر اِسے مسکرانے کے فن پر عبور حاصل ہے۔ فضا، ماحول، در و دیوار اور منظر بھی خاص مزاج کے حامل ہوتے ہیں جو وہاں کے باسیوں پر اثرانداز ہو کر ان کی پہچان متعین کرتے ہیں۔

جب لاہور کو زندہ دلوں کا شہر کہا جاتا ہے تو اُس سے مراد صرف انسان نہیں بلکہ پورا منظر نامہ ہے کیوں کہ یہ زندہ دلی انسانوں تک محدود نہیں۔ اس کی عمارتوں کے دل بھی دھڑکتے ہیں۔ اس کے درختوں پر چہکنے والے پرندے بھی منفرد ہیں۔ پرندوں کی طرح یہی انسان کسی اور شہر میں بس جائیں تو اس کے مزاج میں ڈھل جائیں گے۔ سو زندہ دِل شہر کو اپنے تاریخی نوادرات پر فخر ہے مگر ایک پہچان پر وہ نازاں ہے۔ دنیا اُسے ان کے حوالے سے پہچانے تو وہ جھوم اٹھتا ہے۔ اولیائے برصغیر کے پیر کارواں شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ سے روحانی و نورانی تعلق اس کی طاقت ہے کہیں ایک گھنا درخت ہو تو وہ گزرنے والوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ وہ اسے آسرا سمجھ کر اُس سے فیض یاب ہوتے ہیں اور خیر بانٹنے پر اس کے لئے شکرانے کے احساسات رکھتے ہیں۔ شیخ علی ہجویری کی ذات تمام عمر خیر کے خزانے تقسیم کرتی رہی، افراد کی تعلیم و تربیت پر فائز رہی اور جب دنیا سے رخصت ہوئی تو ان کے مزار کو یہ درجہ ملا کہ وہ دور دراز شہروں، گائوں سے کسی کام لاہور آنے والوں کو اپنے دامن میں پناہ دے، ان کے لئے سائبان بنے، ان کی خوراک کا بندوبست کرے اور ان کا تحفظ کرے۔ انسان کی بنیادی ضرورت خوراک اور ٹھکانہ ہے۔ یہ دونوں ضروریات یہ مزار صدیوں سے پوری کرتا آ رہا ہے۔ ہر وقت وہاں لوگوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ بے آسرا، مفلس اور سفید پوش اپنی انا کو گروی رکھ کر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے یہاں کا رخ کرتے ہیں کہ اس لنگر کو امیر و غریب فخر کی طرح وصول کرتا ہے۔
کیا یہ لاہور شہر کا اعزاز نہیں کہ غزنی میں جنم لینے، پرورش پانے والے عظیم روحانی بزرگ نے خراسان، نیشا پور، سمر قند، آذر بائیجان، طوس، سرخس، بسطام، سامرو، خوزستان، طبرستان، بخارا، فارس، دمشق، بغدا، بصرہ، کوفہ، ترکستان، شمالی ہند سمیت دنیا کے کئی ممالک کا سفر کیا مگر مستقل سکونت کے لئے لاہور کا انتخاب کیا۔ جب شیخ علی ہجویری سلوک کی منازل سے بہرہ ور ہو چکے؛ شریعت، طریقت اور معرفت کی حقیقت ان پر عیاں ہو چکی تو مرشد کا حکم نامہ وصول ہوا، لاہور چلے جائو۔ شیخ نے مؤدب جواب دیا، حضرت شاہ حسین زنجانی ؒ کی موجودگی میں میرا کیا کام؟ مگر مرشد کا حکم مرید کے لئے اٹل فیصلہ ہوتا ہے، سر تسلیم خم کیا اور لاہور روانہ ہوئے۔ جب لاہور پہنچے تو جو خبر سب سے پہلے ملی وہ حضرت شاہ حسین زنجانی ؒ کے جنازے کی خبر تھی۔ اسی سے فقیروں، درویشوں اور اولیاء کے باطنی اوصاف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تصوف بتدریج کشف کی گرہیں کھولنے کا نام ہے۔ کچھ گرہیں ذات کے اندر اور کچھ کائنات کے مختلف مقامات پر رستہ روکے کھڑی ہوتی ہیں۔ ان تک پہنچنا ان کو تلاشنا اور ان میں چھپے اسرار تک رسائی حاصل کرنا سالک کا اولین مقصد ہوتاہے۔ حضرت علی ہجویریؒ کی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب فارسی میں تصوف پر تحریر ہونے والی پہلی مستند کتاب ہے جو تصوف و معرفت کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتی ہے۔ 1911ء میں پروفیسر نکلسن نے اس کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا تو پوری دنیا کے صاحبِ درد نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کے ہر صفحے سے جھانکتی حقیقت کے آئینے میں اپنے باطن کا دیدار کیا۔ انگریزی ترجمے سے پوری دنیا میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہل تصوف شیخ علی ہجویریؒ کے دائرہ محبت میں شامل ہوئے۔ یہ کتاب من کے سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں ان کی معاون ہوئی تو وہ داتا گنج بخشؒ کے گرویدہ ہوتے گئے۔ کشف المحجوب بھی لاہور میں تصنیف ہوئی، اس کا پیغام لاہور کی فضائوں میں رچا بسا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے جس مزار پر چلہ کشی کی اور گنج بخش کا لقب عطا کیا وہ سُونا کیسے ہو سکتا تھا کیوں کہ فیض تقسیم کرنا اس کا اولین مقصد قرار دیا گیا تھا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
اسی شہر میں بہت سے بڑے بڑے مقبروں پر ویرانی ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے، حسرتیں آہ و بکا کرتی دکھائی دیتی ہیں، ایک خاموش فیصلہ در و دیوار پر رقم نظر آتا ہے کہ جس نے خدمتِ خلق کو وطیرہ بنایا اس کے مزار پر ذکر کی محفلیں ہیں، دل کے جذبے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں، دلوں کی طہارت کے ساتھ ساتھ عمارت کی صفائی ستھرائی کا اہتمام ہے، لوگوں کو اب بھی فیض میسر ہے اور جو ملکوں کو فتح کرنے کے چکر میں انسانوں پر ظلم کرتے رہے انسانیت ان سے لاتعلق ہو گئی۔
داتا گنج بخشؒ کے 573 ویں عرس کے موقع پر لاہور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ امن و امان اور شہریوں و زائرین کے تحفظ کے حوالے سے شاندار اقدامات پر وزیر اعلیٰ پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور ان کی ٹیم کے لئے بہت سی دعائیں۔ شاید اس شہر کی کراماتی فضا کی بناء پر یہ مقولہ مشہور ہوا کہ ’’جنھیں لاہور نہیں تکیا اوہ جمیا نہیں‘‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا)۔ خدمتِ خلق کی بنیادوں پر استوار دعائوں اور عقیدتوں کے حصار میں موجود داتا نگری آباد ہے اور آباد رہے گی۔ بقول شعیب بن عزیز:
ابو ایوب استنبول میں لاہور میں داتا
مجھے مولا نے ہر جا اپنی نگرانی میں رکھا
زندگی کو محبت کا کوئی نہ کوئی حصار مطلوب ہوتا ہے۔ محبت کا حصار ٹھوس قلعوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ یہ دُعا اور خوشگوار تاثر کی طرح ہر وقت ذات پر سائے کی طرح موجود رہتا ہے۔
تیرے احساس کے حصار میں ہوں
کچھ دنوں سے عجب خُمار میں ہوں
دل میں اک روشنی سی پھوٹی ہے
میں کسی چشم اختیار میں ہوں
ڈھونڈنا خود کو ہو گیا مشکل
گُم کسی بحرِ بے کنار میں ہوں

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website