ملکی سیاست میں ’’پانامہ پیپرز کا ہنگامہ‘‘ برپا ہے ۔ سپریم کورٹ میں پاکستان کی عدالتی تاریخ کی ایک بڑی ’’عدالتی جنگ‘‘ لڑی جارہی ہے حکومت اور اپوزیشن(تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ) کے درمیان عدالتی جنگ تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے پانامہ پیپرز لیکس کی سماعت کے دوران ججوں کے ریمارکس سے فریقین اپنی مرضی کے مطالب نکال رہے ہیں ابھی تک صورت حال واضح نہیں کہ یہ کیس کیا رخ اختیار کر ے گا اگرچہ قانونی ماہرین پانامہ پیپرز لیکس پر اپنی آراء دے رہے ہیں لیکن ان کے لئے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے ہر روز کیس کی سماعت کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے باہر اپنی عدالت لگائی جاتی ہے سپریم کورٹ نے فریقین کو اپنی عدالتیں لگانے کی ممانعت کر رکھی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن مسلسل سپریم کورٹ کی ہدایت کی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ پانامہ پیپرز لیکس کی سماعت کے بعد حکومتی اور تحریک انساف کی ٹیموں کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ’’ سیاسی پوائنٹ سکورننگ ‘‘ کی جاتی ہے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ پانامہ پیپرز لیکس کے حوالے سے کی جانے والی پریس کانفرنسیں سیاسی ماحول کو ’’آلودہ‘‘ کر رہی ہیں اس طرز عمل سے سنگین صورت حال پیدا ہو سکتی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو کیس کے نتائج سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کو مسلسل بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ شاید عمران خان نے اسی تناظر میں یہ بات کہی ہے اگر وزیر اعظم محمد نواز شریف ’’بری‘‘ بھی ہو گئے تو ’’باعزت بری‘‘ نہیں ہوں گے۔ عمران خان کی گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کو اپنی درخواست کے انجام کے بارے میں علم ہے حکومتی وکلاء کا موقف ہے کہ اب تک عمران خان کے وکلاء اخبارات کے تراشوں کے سوا عدالت میں کچھ نہیں پیش کر سکے جن کے بارے میں کہا گیا جو ’’پکوڑے‘‘ کھانے کے استعمال ہو سکتے ہیں۔ سر دست وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان پنے دلائل دے رہے ہیں ممکن ہے وہ ایک آدھ روز میں اپنے دلائل مکمل کریں گے آج جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف دلائل کا آغاز کریں گے۔ مخدوم علی خان نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ صدر مملکت، وزیر اعظم اور گورنرز کو آئینی استثنی حاصل ہے۔ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیر اعظم کو امور مملکت چلانے کے معاملات میں مکمل استثنیٰ حاصل ہوتا ہے لیکن ہم نے یہ طلب نہیں کیا، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کا بطور شواہد جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ مریم صفدر نے پانامہ لیکس کیس میں مزید دستاویزات داخل کراتے ہوئے تحریک انصاف کی جانب سے ان پرلگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے حکومت پر الزامات لگائے جاتے ہیں جن کا حکومت کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے پوری حکومتی ٹیم تحریک انصاف پر ’’حملہ آور‘‘ ہو جاتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ حکومتی ٹیم میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے تو مناسب ہو گا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی ابتدا تحریک انصاف کی جانب سے کی گئی ہے اس کی انتہا حکومتی ٹیم نے کر دی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے عمران خان 2018ء نے انتخابات کی تیاری سپریم کورٹ سے کر دی ہے۔ انہوں نے اپنی تمام مصروفیات سپریم کورٹ کی حد تک محدود کر دی ہیں بلکہ اب تو وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے بعد ان کو رات کو مزے کی نیند آتی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ محمد سعد رفیق نے کہا ہے عمران خان نان ایشوز کی سیاست کر رہے ہیں وہ پانامہ پیپرز پر 2018ء کے الیکشن کی تیاری کر رہے ہیں یہ ہمارا چہرہ داغدار کر کے سمجھتے ہیں کہ ان کا چہرہ چمکتا ہوا نکل آئے گا جی نہیں! جب وہ سیاست کے ادارے کو داغدار کریں گے پارلیمان کو گالیاں دیں گے، جمہوری نظام کے درخت کی شاخ پر بیٹھ پر اس شاخ کو کاٹیں گے ہم تنہاء نہیں گریںگے ہم سے پہلے وہ گریں گے خواجہ سعد رفیق بھی مسلم لیگ (ن) ’’ فاسٹ بالر‘‘ ہیں وہ جب کسی کو آڑے ہاتھوں لیتے تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔ انہوں کہا کہ ہم یہ زبان استعمال نہیں کرنا چاہتے لیکن ان کی تسلی کروانے کے لیے کبھی کبھی یہ زبان استعمال کرنا پڑتی ہے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ہونہار صاحبزادی کا چوائس ہیں انہوں نے سینیٹر پرویز رشید کی جگہ لی ہے۔ سینیٹر پرویز رشید مزاجاً صلح جو ہیں لیکن عمران خان نے انہیں جارح انداز میں سیاست کرنے پر مجبور کر دیا اب ان کی جانشین مریم اورنگ زیب کے جوہر بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے بھی جارحانہ انداز میںطرز تخاطب اختیار کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو قوم کو گمراہ کرنے اور جھوٹ بولنے پر بھی غیرمشروط معافی مانگنی چاہئے۔ عمران خان کے الزامات ثابت نہیں ہوتے تو عدالت سے کس طرح وزیراعظم میاں نوازشریف کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا موقف ہے کہ وزیر اعظم کا استثناکے پیچھے چھپنا تمام سوالات کا جواب ہے کرپشن اور علی بابا کی سیاست کے تابوت سپریم کورٹ سے نکلیں گے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف غیر ملکی دورے پر ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے بعد بر طانیہ چلے جائیں گے ان کی برطانیہ سے واپسی کے بارے میں تاحال شیڈول سامنے نہیں آیا اس بارے میں وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری محی الدین وانی کوئی حتمی بات بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے آپ کو پانامہ پر ہونے والے ہنگامہ سے اپنے آپ کو دور کر لیا ہے تاہم وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان سپریم کورٹ میں ان کا کیس لڑ رہے ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کے صاحبزادوں حسن و حسین اور مریم نواز کے وکلاء بھی دلائل دیں گے۔ پانامہ پیپرز لیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے والے دنوں کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی پوری سیاست دائو پر لگی ہے۔ عدالتی فیصلہ کے بعد صورت حال واضح ہو جائے گی کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جنوری 2017ء کے اواخر یا فروری کے اوائل 2017ء پانامہ پیپر لیکس کی سماعت مکمل ہو نے کا امکان ہے جس کے بعد فوری طور پر عدالت کا مختصر فیصلہ آسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ سیاست کی نئی راہیں متعین کرے گا۔ پانامہ پیپرز لیکس ہونے والے عدالتی فیصلے نواز شریف اور عمران کی سیاست پر کس حد اثرات مرتب ہوں گے سر دست کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی اگر اس وقت عام انتخابات کرائے جائیں تو نتیجہ2013ء سے مختلف نہیں ہو گا لیکن ایک سال بعد کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ترجمان نے 16جنوری2017ء میں سید حامد علی موسوی کے بارے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ریمارکس کی وضاحت کی ان کا موقف درست ہے کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان اور ان سے منسلک کوئی تنظیم کالعدم نہیں ہے ممکن ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سہواً تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو کالعدم تنظیموں میں شامل کر لیا ہو میں یہ وضاحت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ترجمان کے اصرار پر کر رہا ہوں۔