عوامی نیشنل پارٹی کا شجرہ خان عبدالغفار خان سے براستہ ولی خان ، بیگم نسیم ولی ، اسفند یار ، امیر حیدرخان ہوتی اور آزو بازو کے عزیزوں سمیت ماشاللہ چار نسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی میں عبدالصمد خان اچکزئی کی گرانقدر سیاسی و تاریخی جدوجہد کا ثمر الحمداللہ تین بیٹوں یعنی محمد خان اچکزئی، محمود خان اچکزئی، حامد خان اچکزئی اور عم زاد مجید خان اچکزئی کے لیے بہت ہے۔پارٹی قیادت اور گورنری سے لے کے پارلیمانی نمایندگی اور صوبائی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تک صمد خان کے ترکے میں ملنے والی سیاسی چادر اہلِ خانہ کے لیے لامتناہی خیر و برکت کا سبب ہے۔
مجھے ذاتی طور پر موروثی سیاست سے کوئی تکلیف نہیں۔کیونکہ یہ موروثیت ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اگر حکیم بڈھن کا اپنے لگڑ دادا کے معجونی نسخے اور حاجی گھسیٹے خان کی مغل دور سے چل رہی کھچڑی کی خاندانی ریسیپی اپنے لگڑ پوتے کو سونپنے میں کوئی عیب نہیں ، اگر پکا راگ خان صاحبوں کے ہزاروں قابل شاگردوں کے باوجود نسل در نسل گھرانوں کی گائیکی میں ہی بند رہ سکتا ہے ، اگر پہلی عالمی جنگ لڑنے والے صوبیدار کی چھٹی پشت بھی کاکول جا سکتی ہے اور پہلے دادا سے آخری پوتے تک کئی خانوادے بیوروکریسی میں جھنڈے گاڑ سکتے ہیں ، اگر ہم مغلوں سے سعودیوں تک پشت در پشت خاندانی فراست کے معترف ہیں تو پھر موروثی سیاست میں کیا برائی ہے ؟ چیتے کا بچہ لگڑ بگا تو ہونے سے رہا۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ سیاستداں موروثی ہیں کہ غیر موروثی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ من حیث الطبقہ سیاستداں اسٹیبلشمنٹ سے بار بار مات کیوں کھاتے ہیں ؟ شائد یہ کہ سیاستدان اپنے طرزِ زندگی کے اعتبار سے تو اکیسویں صدی میں مگر ذہنی اعتبار سے اب تک اٹھارویں صدی تک کے قبائلی و شخصی دور میں رہتے ہیں۔جب کہ اسٹیبلشمنٹ وقت اور حالات کے اعتبار سے حلیہ ، حکمتِ عملی اور مہرے چلنے اور بدلنے کے معاملے میں بہتر وسائل ، وسائل کے چابک دست استعمال اور خودکو اردگرد کے رجحانات و تغیرات سے اپ ٹو ڈیٹ اور ہم آہنگ رکھنے کے سبب سیاسی کلاس سے ہمیشہ دو چال اور تین ہاتھ آگے رہتی ہے۔
بہتر شرح خواندگی ، نظم و ضبط اور مفاداتی سوجھ بوجھ سے مالامال اسٹیبلشمنٹ اپنے اندر بہت سے مختلف الخیال ذیلی یونٹ رکھتے ہوئے بھی پبلک امیج کے بڑے پردے پر اپنے حقیقی قدسے بڑا وجود محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں کو اندر ہی اندر دبانے اور خوبیوں کو سامنے لانے کا آرٹ جانتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا وجود اور وزن ہر کسی کو گردن پر محسوس ہوتا ہے مگر کوئی بھی کسی ایک امیج پر انگلی رکھ کے یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دیکھئے دراصل یہ ایک چہرہ ہے اسٹیبلشمنٹ کا۔راون کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے کئی چہرے ہو سکتے ہیں۔
جب کہ سیاسی کلاس اپنی بے چہرگی کے سبب جانی جاتی ہے۔ہر پارٹی قیادت کی قابلیت ، حالات پرکھنے اور اس کے مطابق فیصلہ سازی کی صلاحیت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا چونکہ سیاستداں کی طرح ہر وقت عوام سے براہ راست آمنا سامنا نہیں رہتا لہذا سیاستداں اسٹیبلشمنٹ کے برعکس ہر وقت پبلک امیج کی خوردبین تلے زندہ رہتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے برعکس سیاستداں کی کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی۔یہ سیاستداں کی چوائس نہیں بلکہ پیشے کی مجبوری ہے۔
شائد اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کے برعکس پولٹیکل کلاس اپنے تضادات اور سوچ کے فرق سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان مسائل کے سبب طشت از بام کمزوریوں کو اپنے ہی طبقے کے فورم پر حل کرنے یا پوشیدہ رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔لہذا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ’’ مارے بھی جہان خان اور فیصلہ بھی جہان خان کرے ’’ طرزِ حکمرانی کے آگے بے بس تھی ، ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔
اس حالت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سیاسی عمل بھلے کتنا بھی سازشی ہو مگر چلتا رہے۔بعض علتوں کا علاج محض تسلسل ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے بہتر یہ بات کون جانتا ہے ؟ سیاستداں یہ سب جاننے کے باوجود عادت و طبیعت سے مجبور ہیں۔بیسیوں بار تہیہ کرتے ہیں کہ اب ہیروئن کے سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور ہر بار خود سے کیا وعدہ یہ کہتے ہوئے توڑ دیتے ہیں بس یہ آخری سگریٹ! اس کے بعد کبھی نہیں۔۔۔
مگر ایک مخلوق ایسی بھی ہے جس کی معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی کی اپنی ہی فارسی ہے۔یہ مخلوق نہ تو قانونی موشگافیاں اور باریکیاں سمجھنے کے تکلف میں پڑتی ہے، نہ ہی موروثیت و غیر موروثیت کی کھکھیڑ اس کا دردِ سر ہے۔یہ مخلوق اپنے ہی موڈ اور سمجھ کے تابع ہے اور اس مخلوق کا نام ہے عوام کہ جس کی فیصلہ ساز ریسیپی آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی ۔ووٹ بینک ایک الگ دنیا ہے اور اس دنیا کا اپنا دستور ہے۔
مجھ جیسے لال بجھکڑوں کو تو بہت خوشی ہے کہ سپریم کورٹ نے ملک کے سب سے طاقتور سیاسی خانوادے کو سینگوں سے پکڑ لیا اور یہ پیغام بھی دیا ہے کہ بس بہت ہو چکا۔اب چھوٹی سے چھوٹی بے قاعدگی بھی برداشت نہیں ہو گی۔بھلے وہ دس ہزار درہم کی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن کیا ووٹ بینک بھی یہ پیغام اسی طرح سمجھ رہا ہے؟ اگر تو واقعی سمجھ رہا ہے پھر تو سمجھو پاکستان بدل گیا۔ لیکن اگر ایک ٹھیلے والا ، قصائی ، نانبائی ، بھڑ بھونجا ، لوہار ، آڑھتی، کریانہ فروش اور گدھا گاڑی چلانے والا فیصلے کی تشریح یہ کر رہا ہے کہ ’’ کومپنی پتر دی، تنخواہ پئیو دی، اوہ تنخواہ لوے یا نہ لوے تسی مامے لگدے او ’’تو سمجھیے کہ گیم ایک بار پھر جواریوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔پتے پھر سے بانٹنے پڑیں گے۔