ایک نئی دستاویزی فلم شام کے سرکاری قید خانوں میں ہونے والے جنسی تشدد پر روشنی ڈالتی ہے۔ بظاہر ایسا ایک منظم طریقے کے تحت کیا جاتا ہے اور مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانا بھی مشکل ہے۔ڈنڈوں سے مارپیٹ، بجلی کے جھٹکے اور مختلف اقسام کے سخت آلات کا استعمالاسد حکومت کے زیر انتظام تقریبا تیس جیلوں میں ایک عام سی بات ہے۔ واشنگٹن کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’سیریا جسٹس اینڈ اکاؤنٹ ایبلٹی سینٹر‘ (ایس جے اے سی) نے ’آپ جانتے ہیں، یہاں کیا ہوتا ہے؟‘ کے نام سے ایک نئی دستاویزی فلم بنائی ہے، جس میں ان جیلوں کے اندرونی حالات بیان کیے گئے ہیں۔ان جیلوں سے زندہ بچ کر نکل جانے والوں سے کی گئی گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ ان قید خانوں میں تشدد کے کون کون سے طریقے آزمائے جاتے ہیں؟ اس ڈاکومیٹری کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ان جیلوں میں جنسی زیادتیاں اور جنسی تشدد کی دیگر اقسام ایک معمول بن چکی ہیں۔‘‘
اس رپورٹ اور ڈاکومینٹری کے مصنفین اکانوے متاثرہ لوگوں کے انٹرویوز کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’ان میں سے چھپن پر جنسی اور صنفی تشدد کے حوالہ جات موجود ہیں۔ خاص طور پر انہیں جنسی زیادتی اور جنسی تشدد کی دیگر اقسام کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے تولیدی اعضاء پر تشدد کے ساتھ ساتھ خواتین کو جنسی امراض کی صورت میں ڈاکٹر تک رسائی بھی حاصل نہیں تھی۔‘‘اس ڈاکومیٹری کے مطابق کئی افسران کی موجودگی میں خواتین کی ذلت آمیز تلاشی لی جاتی ہے اور عموماﹰ ایسا کرنے والے مخالف جنس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے قیدیوں کو نہ صرف گالیاں دی جاتیں بلکہ جارحانہ انداز میں چھیڑ چھاڑ بھی معمول کی باتیں ہیں۔ گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی جیلوں میں جنسی تشدد کی دھمکیاں، جنسی اعضاء پر تشدد اور غیر انسانی حالاتمیں قید بھی روزمرہ کا معمول ہیں۔یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ایسا انتہائی منظم طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ ’ایس اے جے سی‘ کی رپورٹ اور دستاویزی فلم کے مصنفین میں سے ایک حنا گریگ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ متاثرین کے بیانات اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی اس رپورٹ سے ملتے جلتے ہیں، جس میں چار سو چون متاثرین کے انٹرویوز کیے گئے تھے۔حنا گریگ کا مزید کہنا تھا، ’’سب سے خوفناک امر یہ ہے کہ یہ تشدد منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ جب ایسی کوئی کہانی آپ پہلی مرتبہ پڑھتے ہیں تو خوفزدہ ہو جاتے ہیں لیکن جب آپ متعدد کہانیاں پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک جیسی صورتحال بار بار پیدا ہوتی ہے۔ قیدیوں کو ایک سسٹم کے تحت تشدد کرتے ہوئے مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘حنا گریگ کے مطابق جن قیدیوں کو رہائی ملتی ہے، وہ آزاد ہونے کے باوجود کئی کئی سال اس تشدد سے متاثر رہتے ہیں۔ اس غیر سرکاری نتظیم نے امید کا اظہار کیا ہے کہ متاثرین کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے اور ملزمان کی شناخت کرتے ہوئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ابھی تک ایسا کوئی بھی مطالبہ حقیقت کا رنگ اختیار نہیں کر سکا کیوں کہ شام بین الاقوامی فوجداری عدالت کا رکن ہی نہیں ہے۔سن دو ہزار سترہ میں جرمنی میں موجود شامی مہاجرین نے اسد حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں شام کے متعدد اعلیٰ عہدیدار بھی نامزد تھے۔ اسی بنیاد پر سن دو ہزار اٹھارہ میں جرمنی میں شامی ایئر فورس انٹیلی جنس چیف جمیل حسن کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔ ان پر انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔