انقرہ: ترکی کی عدالت نے صدر رجب طیب اردگان کے خلاف 2016 میں بغاوت اور قتل کی سازش کرنے میں ملوث 104 افراد کو عمر قید کی سزا سنادی۔
سرکاری نیوز ایجنسی ’اناطولیہ‘ کا کہنا ہے کہ ترک صوبے ازمیر کی عدالت کی جانب سے سابق فوجی اہلکاروں کو آئینی احکامات معطل کیے جانے کی کوشش کرنے پر سنگین نوعیت کی عمر قید کی سزا دی گئی جبکہ کل 280 فوجی اہلکار اس الزام کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس قسم کی سنگین قید کی سزا ترکی میں سزائے موت کا متبادل مانی جاتی ہیں اور عمومی طورپر دی جانے والی عمر قید سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے۔
اس ضمن میں سزا پانے والے ملزمان میں سابق ایئرفورس چیف آف اسٹاف لیفٹننٹ جنرل حسن حسین ڈیمیراسلن اور سابق آرمی چیف آف کمانڈ میجر جنرل میمدوح حیکبلین شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ عدالت نے 21 مشتبہ افراد کو صدر کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے پر 20 سال کی سزا جبکہ 31 افراد کو عسکری گروپ کا حصہ بننے پر 6 ماہ سے 10 سال تک کی مختلف سزائیں سنائیں۔
اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ بغاوت کی رات میں مبینہ طور پر ترک صدر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، اس وقت صدر طیب اردگان چھٹیوں پر مرمریز میں ایک سیر گاہ میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ موجود تھے، جن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے حساب سے وہ موت سے محض 15 منٹ کے فاصلے پر تھے۔ ترک صدارتی ذرائع کے مطابق 2016 میں ہونے والی بغاوت میں 240 افراد ہلاک ہوئے تھے، اس کے علاوہ 24 باغیوں کو بھی منطقی انجام تک پہنچایا گیا تھا جبکہ 2 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
اس ضمن میں انقرہ نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن پر اس ناکام بغاوت کے احکامات دینے کا الزام عائد کیا تھا جن کی جانب سے الزامات کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔ ترک حکام کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم دہشت گردی میں ملوث ہے جبکہ تنظیم کا موقف ہے کہ ہم امن اور اعتدال پسند اسلام کی ترویج کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ترکی میں 2016 کی بغاوت کے بعد سے ہنگامی صورتحال نافذ ہے جس کے تحت اب تک 50 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے، اور ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری اہلکاروں کو مبینہ طور پر فتح اللہ گولن کی تنظیم یا عسکریت پسندوں سے رابطے میں ہونے پر برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بغاوت کی کوشش کے بعد سے حکام نے ایک لاکھ 60 ہزار افراد کو قید جبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں سرکاری اہلکاروں کو کریک ڈاؤن کے دوران برطرف کیا جبکہ 50 ہزار افراد پر باقاعدہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے جو جیلوں میں قید سماعت کے منتظر ہیں۔
خیال رہے ترک حکومت کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے کریک ڈاؤن سے دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مغربی اتحادیوں کو بھی تشویش ہے، جن کو ڈر ہے کہ طیب اردگان کی سربراہی میں ترکی آمریت کی جانب گامزن ہے، ان کی جانب سے ترک صدر پر بغاوت کو مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا بھی الزام ہے۔ تاہم ترک حکومت کا کہنا تھا کہ ترکی کو جس قسم کے حفاظتی خطرات کا سامنا ہے اس کے پیش نظر اس قسم کے سخت اقدامات اٹھانا ناگزیر تھا۔