گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں ایک اہم کیس کی سماعت کے دوران کسی جج صاحب یاوکیل نے عدالت میں کہا،کہ “کیاانصاف کے حصول کے لیے قانون کو روند ڈالیں”۔ غور کیا جائے تویہ جملہ ہمارے پورے عدالتی نظام کی جوہری حیثیت کوسب کے سامنے لے آتاہے۔صاف پتہ چلتاہے کہ ہمارا عدالتی نظام دراصل قانون کی بنیادپر کھڑا ہوا ہے۔ اس کاعدل سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔
ہماری عدالتیں صرف اورصرف قانون کی عدالتیں ہیں۔ یہ انصاف کی عدالتیں نہیں ہیں۔جب ہم اپنے آپ کوقانون کی عملداری کے مفروضے میں مقیدکرلیتے ہیں توایک عنصرجن بن کر سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ اور وہ ہے عمل ۔اس کاہم پلہ اردولفظ ذہن میں نہیں آرہا۔ اسکوعدالتی طورطریقہ کہاجاسکتاہے۔بہرحال طریقہ یا پروسس پورے عدالتی نظام کوغلام بناکررکھ چکاہے۔ انصاف اس پوری کارروائی میں ایک جزوی سانتیجہ ہے۔ قانون کی عملداری کا مقصد قطعاً انصاف کی مکمل فراہمی نہیں ہے۔ہمارے عدالتی نظام کااصل المیہ ہی یہیں سے شروع ہوتا اوریہیںختم ہوجاتاہے۔
دنیاکے کسی ترقی یافتہ ملک کے عدالتی نظام کوسنجیدگی سے دیکھیے وہ صرف اورصرف عدل کی فراہمی کے لیے کوشاں نظرآتاہے۔ درست بات ہے کہ وہاں بھی عدالتی پروسس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ مگرطریقہ کے سامنے انصاف کوبے وقعت غلام بناکرزمین پرنہیں بٹھایاجاتا۔اسلامی نظامِ عدل کاجائزہ لیں۔ وہاں صرف اورصرف ایک بات پرزور دیا گیا ہے۔اوروہ ہے فوری انصاف کی فراہمی۔ انگریزوں نے اپنے ملک میں برصغیرکوعطاکردہ نظام کورائج نہیں کیا۔وہاں قطعاًایسی عدالتیں نہیں بنائیں جوکہ اس آہستہ رفتارسے چلیں کہ انصاف مانگنے والے کے لیے انصاف ہی بے معنی ہوکررہ جائے۔
اکثر دانشور بات کرتے ہوئے”قانون کی حکومت” کی بات کرتے ہیں۔ دیوانگی کی حدتک اسے تکیہ کلام بناکرسارے مسائل کاحل بتاتے ہیں۔غورکیجیے۔کوئی “انصاف کی حکومت”کی بات کرتا نظر نہیں آتا۔ آپ بڑے سے بڑے قانون دان،محقق،عالم یاعدلیہ سے منسلک کسی جج کی بات سنیے۔آج تک کوئی عدل کی حکومت کی وکالت کرتا ہوا نظرنہیں آئیگا۔
بدقسمتی سے ہم قانون کوانصاف کے زمرے میں لے آئے ہیں۔یہ کئی جگہ پردرست بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اپنے نظام پر طائرانہ نظرڈالیے تودونوں میں خوفناک تضاد نظر آئیگا۔ ثبوت، شواہد اور ضوابط کے بغیرکوئی بھی جج کچھ نہیں کر سکتا۔ عدلیہ کے کئی اہم لوگوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ہربندہ تسلیم کرتاہے کہ کسی کو سزا اور جزا کے لیے ثبوت اور گواہ چاہیے۔لازم ہے کہ اگرکسی مجرم کے خلاف گواہ نہیں ہونگے تواس کے خلاف سزا نہیںسنائی جاسکتی۔ مگر اس کا دوسرا رخ بھی انتہائی اہم ہے۔
اگرکسی بے گناہ کے خلاف گواہ اورثبوت بنا دیے جائیں تو مظلوم انسان جرم کیے بغیرسولی پرلٹک سکتاہے۔ دہشت گردی اورمعاشی دہشت گردی کے سنگین جرائم پر نظر ڈالیے۔صاف نظر آجائیگا کہ گنہگار قانون کے گورکھ دھندوں کے سقم سے فائدہ اُٹھاکر سب کوبیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔فرقہ وارانہ قتل کے عدالتی کیسوں کوپرکھیے۔
ایک دہشت گردجس نے بم دھاکہ کرکے درجنوں لوگ ماردیے۔جب عدالت میں پیش ہوتا ہے تواس کی پوری تنظیم مکمل طاقت کے ساتھ اس کی حفاظت کر رہی ہوتی ہے۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ گواہ بینکرعدالت میں ایک درندے کے خلاف گواہی دے۔پبلک کے عام آدمی کی بات توچھوڑدیجئے۔بااثر افراد بھی بطورگواہ پیش ہوتے ہوئے لرزتے ہیں۔پولیس کے ایک ڈی آئی جی نے بتایاکہ ایک مذہبی فرقہ وارانہ کیس کی تفتیش کررہا تھا۔ ملزم نے اپناجرم اور سارے واقعات تسلی سے بتادیے تھے۔ صرف ایک بندے نے تقریباًتیس مختلف فرقہ کے لوگوں کو قتل کیاتھا۔
تفتیش میں ثابت ہوچکا تھا کہ ساراکچھ کیسے اور کیونکر ہوا ہے۔ اسلحہ کہاں سے خریداگیا،اسے کیسے موقع واردات پرلایا گیا۔کیسے منصوبہ بندی ہوئی اورخون کی ہولی کیسے کھیلی گئی۔سب کچھ ظاہرہوگیا۔جتنے بھی پولیس افسر غیرجانبدارتفتیش کررہے تھے انھیں خط موصول ہوناشروع ہوگئے۔خطوط میں درج ہوتاتھاکہ آپکے بچے اوربچیاں فلاں وقت اسکول یاکالج آتے جاتے ہیں۔اہلیہ فلاں وقت خریداری کے لیے بازارجاتی ہے۔آپکے پورے خاندان کے کوائف اورآنے جانے کے اوقات نوٹ کرلیے ہیں۔
اب وہ ہمارے رحم وکرم پرہیں۔ہم جب چاہیں،جہاں چاہیں، انھیںقتل کرسکتے ہیں۔خطوط کی موصولی کے بعدکسی بھی افسرمیں غیرجانبدارتفتیش کی سکت نہیں رہی۔ڈی آئی جی بتانے لگاکہ اس فرقہ پرست تنظیم کے مجرم کے خلاف سب نے تفتیش کرنے سے انکارکردیا۔کسی قسم کے گواہ اورثبوتوں کی عدم موجودگی میں ثابت شدہ مجرم عدالت سے باعزت بری ہوگیا۔جس طرح کے دھمکی آمیزخطوط پولیس کے افسران کوگئے تھے،بالکل اسی طرح کے خطوط جج صاحبان کو بھی موصول ہوئے۔نتیجہ سامنے تھا۔درجنوں لوگوں کا قاتل بڑے آرام سے بری ہوگیا۔
تمام مشکلات صرف فرقہ پرستی سے منسلک نہیں ہیں۔ کراچی میں لرزہ خیزبلکہ بھیانک وارداتوں کودیکھیے۔ سو فیصدپتہ ہوتاہے کہ قتل وغارت کون کروا رہا ہے۔اس کے پیچھے کون سی سیاسی یاغیرسیاسی تنظیم موجودہے۔مگرگواہ اورثبوت نہ ہونے کی بدولت عدالت خاموشی سے ان مجرموں کو چھوڑ دیتی ہے۔سیکڑوں بندوں کوآگ لگانے کے واقعات سے لے کربھتہ خوری اورقتل کی وارداتوں کودیکھیے۔عدالتی نظام تو گواہ مانگتی ہے۔کون گواہی دیگا۔کون سچ بولے گا۔
دوبارہ عرض کرونگاکہ جج صاحبان کوبھی سچ کاپتہ ہوتاہے۔مگروہ اپنے”پروسس”سے باہرنہیں نکل سکتے۔ملزم یامجرم آرام سے باہرآجاتے ہیں۔اس کے بعدوہ مزیدخوفناک وارداتیں کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتاہے کہ موجودہ عدالتی قانونی نظام میں کوئی ان کابال بھی بیکانھیں کرسکتا۔مستندرپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں اسی سے نوے فیصدگرفتارشدہ ملزمان بڑے اطمینان سے باعزت گھرواپس آجاتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو دیکھیے۔ ان کے خلاف کون پیش ہوگا۔جودرندہ صفت لوگوں کے سرکاٹ کر فٹ بال کھیلتے ہیں، کیا انکو سزا دی گئی۔
معاشی دہشت گردی کی طرف آئیے۔ہرایک کے علم میں ہے کہ فلاں شخص نے کھربوں روپے کھائے ہیں۔اس کے پیسے کس ملک میں محفوظ پڑے ہوئے ہیں۔اس نے سرکاری عہدے پرفائزہوتے ہوئے کتنی لرزہ خیزکرپشن کی ہے۔مگراس طرح کے مضبوط ملزم بہترین وکیل کرتے ہیں۔
کروڑوں کی فیس دینے کا مقصدصرف ایک ہے،کہ عدالت کے پراسس کواس طرح اپنے حق میں استعمال کیاجائے کہ کوئی معاشی جرم ثابت کرنا ناممکن ہوجائے۔نام نہیں لکھنا چاہتا۔ مگروہ شخص جس نے پرائیویٹ میڈیکل کالج کھولنے کے لیے دوکروڑکا ریٹ مقرر کردیا۔جس نے پاگلوں کی طرح مختلف حکومتی اسکیموں سے پیسے خوردبردکیے۔جس نے ڈھائی ہزارکروڑروپے کی مبینہ کرپشن کی۔آج بڑے آرام سے بیٹھاہواہے۔بہترین وکلاء نے اسے آسودہ کردیا ہے۔ اسے سیاسی قیدی کادرجہ دے دیاگیا ہے۔
بتائیے سب کچھ جانتے ہوئے کون سی عدالت اسے سزادے پائیگی۔لیکن کیایہی شخص لندن، امریکا یافرانس میں اتنی کرپشن کرنے کے بعداطمینان سے گھربیٹھ سکتاتھا۔ قطعاً نہیں ۔ابھی تک توکیس کافیصلہ ہوچکا ہوتااوروہ بدترین عقوبت خانے میں سزا یافتہ ہوتا۔پر نہیں، کیونکہ ہماراعدالتی نظام توقانون کامحافظ ہے۔اس کا انصاف سے کیاتعلق ہے!لہذااس طرح کے قومی مجرم بالاخرباعزت رہا ہونگے۔موقع ملنے پردوبارہ ملک اور نظام کواس کی ادنیٰ اوقات یاد کروادیں گے۔
نیشنل ایکشن پلان میں درج ہے کہ پورے نظام اانصاف کومکمل طورپر”اوورآل”کیاجائیگا۔اسے تبدیل کیا جائیگا۔کریمنل جسٹس سسٹم کوبھرپورطریقے سے حصولِ انصاف کے لیے بہتربنایاجائیگا۔مگرسوال یہ ہے کہ اس فرسودہ اور مہلک نظام کوٹھیک کرنے کے لیے کون ہاتھ ڈالے گا۔کون انصاف کے نظام کوقائم کرکے اپنی موت کوآواز دیگا۔ غور فرمائیے، آج تک عدالتی نظام کی بہتری کے متعلق ایک جملہ تک نہیں کہا گیا۔
المیہ یہ ہے کہ اس عدالتی نظام کے فوائد حاصل کرنے والے اتنے طاقتورلوگ ہیں،کہ اگرکوئی نیک نیتی سے درستگی چاہے بھی توبھی کچھ نہیں کرسکتا۔کیامیرے آقاؐکی عدالت میں صرف اورصرف انصاف پرزورنہیں تھا۔کیاخلفاء راشدین کی کوشش یہ نہیں تھی کہ کمزوراورمضبوط دونوں قاضی کے سامنے حاضرہوں اورمجرم کوقرارواقعی سزاملے۔کیاسیدناعمرفاروقؓنے قاضی کواپنے احترام میں اٹھتے دیکھ کر سرزنش نہیں کی تھی۔کیااُس نظام میں انصاف کا بروقت حصول ریڑھ کی ہڈی نہیں تھا۔
ہزاروں واقعات ہیں جس میں ہمارے پاس انصاف فراہم کرنے کی درخشاں مثالیں ہیں۔پرنہیں، ہم عدالتی قواعد اورضابطہ کے غلام رہ کرانصاف کوقتل کرناعین نیکی گردانتے ہیں۔پوچھیے،ان غریب لوگوں سے جودہائیوں تک عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں اورپھربھی انصاف کے حصول کے نزدیک تک نہیں پہنچ سکتے۔مگرنہیں،ہم نے عدل کی نہیں،قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے۔جب تک ہم قانون کوانصاف کی عدالت میں پیش نہیں کرتے،ہم ایسے ہی کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارتے رہینگے۔انصاف کوحاصل کرنے کے لیے اگرقانون کوروندنا پڑے،تو یہ گھاٹے کاسودا نہیں!