دارالسلام: ابھی اپریل میں ہی برونائی میں سخت شرعی قوانین کا اطلاق کیا گیا تھا، جن میں دیگر کے علاوہ ہم جنس پرستوں کے لیے سنگساری کی سزا مقرر کی گئی تھی۔ تاہم اب سلطان نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔
برونائی کے سلطان حسن البلقیہ نے آغاز رمضان کے موقع پر ٹیلی وژن پر اپنے ایک خطاب میں اعلان کیا، ’’نافذ کیے جانے والا نئے قوانین میں ہم جنس پرستوں اور غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے لیے مقرر کی جانے والی سنگساری کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں علم ہے کہ ان سزاؤں کے نفاذ اور عمل درآمد پر بہت سے سوالات اٹھے ہیں اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ساتھ ہی انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ برونائی تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدے کی توثیق کرے گا۔ برونائی نے چند سال قبل ہی اس دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
حسن البلقیہ نے مزید کہا، ’’ہمیں یقین ہے کہ جب اس حوالے سے غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی تو ہی اس قانون کا میرٹ واضح ہوجائے گا۔ سلطان حسن البلقیہ کی جانب سے یہ اعلان عالمی سطح پر شدید احتجاج کے بعد کیا گیا ہے۔ بہت سے ممالک نے تو برونائی کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ان قوانین کو ظالمانہ اور غیرانسانی قرار دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق اور ہم جنس پرستوں کی مختلف تنظیموں نے بھی ان قوانین پر تنقید کی تھی۔ معروف اداکار جارج کلونی اور موسیقار ایلٹن جان نے ان تمام پرتعیش ہوٹلوں کے بائیکاٹ کا کہا تھا، جو برونائی کے سلطان کی ملکیت ہیں۔
ستمبر 2018 ء میں ایل جی بی ٹی افراد کے لیے رنگین پرچم لہرائے گئے۔ یہ وہی وقت تھا جب بھارتی سپریم کورٹ نے سیکشن 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت تو دے دی لیکن ہم جنس پرستوں کی شادیوں نے کا معاملہ ابھی بھی دور کی بات ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کی تاخیر کے بعد تین اپریل کو سلطان نے ان قوانین کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ نئے قوانین میں چوروں کے ہاتھ اور پیر کاٹنے تک کی سزائیں رکھی گئی تھیں۔ اسی طرح زنا، ہم جنس پرستی اور ڈکیتی کی سزا موت رکھی گئی تھی، جبکہ توہین رسالت پر سزائے موت دینے کا دائرہ کار مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم افراد تک وسیع کر دیا گیا تھا۔ مشرق بعید کی جزیرہ ریاست برونائی کی آبادی تقریباً سوا چار لاکھ ہے اور اس کا شمار دنیا کی امیر ترین ریاستوں میں ہوتا ہے۔ برونائی میں سخت شرعی قوانین کے نفاذ پر اگرچہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم جنوبی ایشیا کے مسلم اکثریتی ممالک کے سوشل میڈیا صارفین بظاہر ان قوانین کی حمایت کر رہے ہیں۔ مراکش کے دیہی علاقوں میں کنوارے پن کا ٹیسٹ کا رواج عام ہے۔ اب مراکش کی نوجوان خواتین نے اس رسم کے خلاف ایک مہم شروع کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ ٹیسٹ ایک طرح کی جنسی زیادتی ہے اور پسماندگی کی ایک علامت ہے۔