پشاور: مرکزی حکومت نے اگر قبائلی علاقہ جات کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے ہوئے اسے بندوبستی علاقوں والاسٹیٹس دینا ہوتا تو وہ یہ کام بہت پہلے کر چکی ہوتی لیکن (ن) لیگ کی مرکزی حکومت اس معاملے پر پہلو تہی کرتی آئی ہے کیونکہ وہ اتنا بڑا فیصلہ لیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھی لیکن اب جب فیصلہ سازوں نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کاارادہ اور فیصلہ کرلیا ہے تومرکزی حکومت بھی اس کا کریڈٹ لینے کے لیے پوری فارم میں نظر آرہی ہے اورموجودہ حکومت اپنے آخری چند دنوں کے دوران یہ بل منظور کرواتے ہوئے اسے عام انتخابات میں کیش کرنے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
فاٹا کا معاملہ قیام پاکستان ہی سے التواء کا شکار رہا ہے جس کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ جس کی بنیاد پرفاٹا کی نیا آریا پار ہوسکتی اور پھر خود فاٹا بھی اپنے مستقبل کے فیصلے کے حوالے سے منقسم رہا ہے جس کی وجہ سے فاٹا کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوسکا لیکن اب جبکہ موجودہ حکومتیں اپنے آخری دنوں میں ہیں،اس موقع پر فاٹا سے متعلق اہم فیصلے ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیاں اس بات کے حق میں تھیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرتے ہوئے قومی دھارے میں لایاجائے اور صرف جمعیت علماء اسلام(ف)اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی اس کی مخالفت کر رہی تھیں لیکن اس وقت مرکزی حکومت نے ان سیاسی پارٹیوں کی آواز پر کان نہیں دھرا حالانکہ اگر اس وقت ان سیاسی پارٹیوں کی بات سن لی جاتی اور اس پر فیصلہ کرلیاجاتا تو آج فاٹا بھی اس پوزیشن میں ہوتا کہ اس میں عام انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں کی جا رہی ہوتیں لیکن یہ فیصلہ لینے میں بہت تاخیر کی گئی۔
جس کی وجہ سے اس سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے عام انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکے گا اور قبائلی عوام کو اس سال بلدیاتی انتخابات پر ہی گزارہ کرنا ہوگا جبکہ عام انتخابات کا انعقاد آئندہ سال اپریل، مئی میں ہوگا جس کے بعد ہی قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوگی اور وہاں کے نمائندے اپنے علاقوں اور عوام کی نمائندگی صوبائی اسمبلی میں کر پائیں گے اورتب تک فاٹا اپنے بارے میں دوسروں کے فیصلوں کا محتاج رہے گا ۔
چونکہ فاٹا کے حوالے سے اس فیصلے میں جمعیت علماء اسلام(ف) باہر رہ رہی ہے جومناسب نہیں کیونکہ جمیعت علماء اسلام(ف)کا فاٹا میں ایک اہم اور بڑا کردار ہے اور اسے اس اہم موقع پر فاٹا کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہ کرتے ہوئے خلاء پیدا کیا جا رہا ہے وہ بھی اس صورت میں کہ اگرعام انتخابات کے نتیجے میںخیبرپختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت بنتی ہے توکیا وہ فاٹا کو اس طریقے سے ساتھ لے کر چلنے کے لیے تیار ہوگی ۔
جیسے سوچا اور سمجھا جا رہا ہے اس لیے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جے یوآئی کو اسی موقع پرساتھ لیتے ہوئے فیصلہ سازی میں شامل کرلیاجائے تو یہ ایک صائب اقدام ہوگا کیونکہ جے یوآئی احتجاج پر اترآئی ہے، دوسری جانب جماعت اسلامی اورجے یوآئی کے بھی فاٹا کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں حالانکہ اس بارے میں کہا گیا تھا کہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے دورکنی کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ وہ فاٹا سے متعلق اختلاف ختم کر سکے لیکن یہ اختلاف ختم نہیں ہو سکا اور اسی اختلاف کے دوران ہی خیبرپختونخوا کے لیے ایم ایم اے کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے حوالے سے الگ کہانی موجود ہے۔
متحدہ مجلس عمل کی خیبرپخونخوا میں کی گئی تنظیم سازی کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا، اگر جماعت اسلامی اس عمل کو دل سے تسلیم کررہی ہوتی تو اس صورت میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نہ صرف یہ کہ صوبائی سیٹ اپ میں سینئر نائب امیر کا عہدہ لیتے بلکہ ساتھ ہی وہ اس پریس کانفرنس میں بھی موجود ہوتے جس میں ایم ایم اے کے صوبائی سیٹ اپ کا اعلان کیا گیا لیکن وہ وہاں سے غیرحاضر تھے اوران کی غیر حاضری ہی کان کھڑے کرنے کے لیے کافی تھی۔
مشتاق احمد خان اور ان کے ساتھی کسی بھی طور اس بات پر تیار نہیں تھے کہ ایم ایم اے کی صوبائی صدارت جے یوآئی کو دی جائے لیکن جماعت اسلامی کی مرکز ی قیادت کے کہنے پر وہ پیچھے ہٹ گئے تاکہ ان کی پارٹی قیادت کا مان برقرار رہے لیکن جے یوآئی کی صدارت کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے اب بھی جماعت اسلامی کے پاس بہت سے دلائل بھی ہیں اورجماعت اسلامی کے قائدین نے اسے دل سے تسلیم بھی نہیں کیا اور یہ مسلہ الیکشن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر دوبارہ اٹھے گا۔
جماعت اسلامی جب ایم ایم اے کی مرکزی صدارت جے یوآئی کو دینے پر تیار ہوئی تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھاکہ جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کی صدارت پر نظریں لگائے ہوئے ہے کیونکہ جماعت اسلامی ترازو کا اپنا انتخابی نشان بھی چھوڑکرکتاب کے نشان پر الیکشن کرنے کو تیارہوئی ہے حالانکہ گزشتہ انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ انتخابات کے بائیکاٹ اوراتحادوں کی سطح پر انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے جماعت اسلامی کا اپنا انتخابی نشان کھو کر رہ گیا ہے۔
اس لیے اب جماعت اسلامی تمام انتخابات اپنے اسی ترازو کے انتخابی نشان پر ہی کرے گی لیکن ایم ایم اے کی بحالی اور اس پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کی وجہ سے جماعت اسلامی نے ’’ترازو‘‘کی بھی قربانی دی اور کتاب کے نشان کو قبول کیا جو بنیادی طور پر جے یوآئی کا انتخابی نشان ہے جس نے گزشتہ دونوں انتخابات میں اسی انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیا، اس صورت حال کے بعد جماعت اسلامی ہر صورت ایم ایم اے کی صوبائی صدارت پر اپنا حق سمجھتی تھی جو اسے نہیں مل سکا۔
جماعت اسلامی اس بات پر بھی ناراض ہے کہ جمعیت علماء اسلام(ف)اب تک مرکز میں حکومت سے الگ کیوںنہیں ہوئی کہ اب جبکہ حکومتوں اور اسمبلیوں کے ختم ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں،ان کے خیال میں جے یوآئی کو اقتدار کی غلام گردشوں سے باہر آجانا چاہیے تھا لیکن جے یوآئی بوجوہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکی اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ فاٹا کے حوالے سے بھی دونوں پارٹیوں میں بڑا اختلاف موجود ہے۔
جسے ختم کرنے کے لیے کوششیں توضرور کی گئی ہیں لیکن وہ کوششیں زیادہ سنجیدگی لیے ہوئے نہیں تھیں جس کی وجہ سے دونوں جماعتیں اس معاملے میں ایک ہی صفحے پر نہیں آسکیں تاہم اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں ضرور ہونی چاہئیں کیونکہ فاٹا سمیت دیگر ایشوزکے حوالے سے دونوں جماعتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں اگر وہ ختم نہ ہوئے تو ایم ایم اے کے لیے مشکلات ہوں گی کیونکہ بہرکیف یہ 2002ء نہیں بلکہ 2018ء ہے اور اب دونوں جماعتیں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا مڑکر2007ء کی طرف بھی دیکھتی ہیں جہاں بہت کچھ دھندلایا ہوا نظر آتا ہے۔