جنوبی پنجاب صوبہ محاذ ہو یا سرائیکی صوبے کا لالی پوپ، پیپلز پارٹی اس ضلع میں اسی طرز کی سیاست کرتی آئی ہے۔
اگر پیپلز پارٹی یا کوئی اوراتحاد جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں مخلص ہوتا تو یہ کام پی پی کے گزشتہ دور اقتدار میں با آسانی پائیہ تکمیل تک پہنچ سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی نے گزشتہ دور حکومت میں آنے سے پہلے جنوبی پنجاب کے باسیوں سے یہی وعدے کیے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد مکمل اختیار ہونے کے باوجود جنوبی پنجاب کے باسیوں کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا تھا۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے صدر مخدوم خسرو بختیار کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور گزشتہ اٹھارہ سال سے ہر حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
محترم جناب خسرو بختیار صاحب سال 2000ء سے لے کر آج تک اگر علاقے کی محرومیاں دور نہیں کر پائے تو مستقبل میں کیا کر سکیں گے۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا نعرہ لگانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو پوری سیاسی زندگی میں کسی پارٹی کے ساتھ وفادار نہیں رہے۔ حکومتی اتحاد کا حصہ رہنے کیلئے ان لوگوں نے ہمیشہ ہوا کا رخ دیکھ کر وفاداریاں تبدیل کیں۔ یہ لوگ ڈکٹیٹر کی جھولی میں بیٹھے اور ذاتی مفاد کی خاطر جمہوریت کی تھالی میں کھا کر اسی میں چھینک بھی ماری۔
اگر بڑی تصویر میں دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب محاذ کا نعرہ لگانے والوں کی ملکی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں، کسی سیاسی جماعت نے آج تک ان لوگوں کو پارٹی میں شمولیت کی باضابطہ دعوت نہیں دی کیوں کہ جیتنے والی پارٹی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہیں نہیں جائیں گے اور ہارنے والوں کو بھی پتا ہوتا ہے کہ انہیں دعوت نامہ بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
پچھلے 18سال میں کسی سیاسی جماعت نے حکومت بنانے کیلئے ان کو اہم نہیں گردانا، مشرف سے لے کر زرداری اور اب نوازشریف تک انہوں نے ہر جماعت کےساتھ الیکشن کے قریب آ کر بغاوت ہی کی ہے۔
اگر جنوبی پنجاب کی عوام پچھلے 30 برسوں سےغربت اور جہالت کا شکار ہیں تو اس میں 18 سال ان کے بھی شامل ہیں۔ اگر جنوبی پنجاب میں غربت کی شرح 51 فیصد ہے اور یہاں کے عوام بیروزگاری کی عفریت سے لڑ رہے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہیں۔
ان لوگوں نے اپنی عوام کیلئے کالج، یونیورسٹی تو ایک طرف علاج معالجے کیلئے نیا سرکاری اسپتال تک نہیں مانگا، کوئی فیکٹری کارخانہ نہیں مانگا، یونین کونسل کے اسپتالوں کیلئے سہولیات نہیں مانگیں، کسی بین الاقوامی صنعت کی پیداوار کا کارخانہ یا فیکٹری انہوں نے نہیں مانگی، جس سے عوام کو روزگار ملے۔
انہوں نے لگائیں تو بس چینی کی ملیں، انہوں نے عوام کودیاتو بس گنے کا پرمٹ، انہوں نے اپنی زمینوں کیلئے پکے کھالے اور اضافی پانی مانگا۔ ان لوگوں نے کپاس کی کاشت کیلئے صف اول کے ضلع کو گنے کی پیداوار پر لگا دیا جس سے زمین سیم و تھور کا شکار ہو کر ناکارہ ہو رہی ہیں۔
ان لوگوں سے سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کیلئے سنجیدہ کوششوں کی امید رکھنا فضول ہے۔