لاہور (ویب ڈیسک) حکومت مضبوط حصار میں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے ’’جن بھوت‘‘ کوشش کے باوجود اس حصار میں داخل نہیں ہو پا رہے ۔ اتنے بیانات، اتنی بددعائیں، اپنے گرد حصار کھینچے بغیر کوئی حکومت منصفانہ انتخابات کے نتیجہ میں دو تہائی اکثریت سے بھی قائم ہوجاتی نامور کالم نگار مشتاق سہیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ تو اب تک زمیں بوس ہوچکی ہوتی۔ جادو، ٹونے، روحانیت کو دخل ہے یا اوپر والے کی نظر کرم کہ سارے ’’اوپر والے‘‘ بھی ابھی تک حمایت کر رہے ہیں، بات اب تک بنی ہوئی ہے بنی رہے گی۔ بڑی طویل و عریض کہانی ہے۔ ربع صدی تک پھیلی ہوئی، ہاتھ میں تسبیح، زیر لب وظائف، یہی وظائف کام کر گئے اور انہوں نے مضبوط اپوزیشن کو تسبیح کے دانوں کی طرح بکھیر دیا۔ زیادہ دن نہیں گزرے، کل کی بات ہے سارے بڑے لیڈروں نے کس طمطراق سے دعوے کیے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے۔ سچ پوچھیے تو حکومت بھی وقتی طور پر ہراساں ہوئی، کہا گیا کہ پانچ چھ ارکان کی برتری کوئی برتری نہیں، اختر مینگل ادھر ادھر ہوگئے تو کام ہوجائے گا۔ آفرین ہے جہانگیر ترین میدان میں کودے اور انہوں نے اختر مینگل کو اِدھر اُدھر ہونے ہی نہیں دیا۔ وزیر اعظم چیمبر کا راستہ دکھایا۔ باہر نکلے تو سارا جوش و خروش ہنڈیا کے ابال کی طرح ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ آگ پر پانی ڈالنے والے آڑے آگئے تھے۔ آئندہ دو روز میں باقی ارکان سے بھی عہد و پیمان ہوگئے۔اپوزیشن کی ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی۔ پانچ چھ ارکان کی برتری کا دعویٰ حکومت نے بجٹ 31 ووٹوں کی اکثریت سے منظور کرالیا۔ 31 ارکان کہاں سے آگئے ’’گھی بنائے سالنا بڑی بہو کا نام‘‘ اب بیٹھی ڈھول بجا، دھاندلی سے منظور ہوا یا بھل مانسی سے، اس سے کسی کو کیا غرض، کاروبار حکومت تو رواں دواں رہا، بجٹ منظور نہ ہوتا تو ’’جی ٹی روڈ پہ بریکیں لگ جاتیں‘‘ کتنی اپوزیشن جماعتوں نے ووٹ دیے یا بالکل نہیں دیے۔ بحث فضول، اپوزیشن پہلے امتحان میں فیل ہوگئی۔ بڑی تگڑی طاقتور، عددی لحاظ سے مضبوط لیکن ایک دوسرے کے بارے میں شکوک و شبہاب اور تحفظات کا شکار، پیپلز پارٹی ابھی تک ہاں اور ناں کے بیچ میں معلق ،کیا کریں کیا نہ کریں۔ بلاول جوش کی علامت زرداری ہوش کا استعارہ ،ن لیگ بہت دنوں تک روٹھے سیاں کو منانے میں لگی رہی۔ سیاں مان کے نہ دیے۔ مان لیجیے اب کے سرگرانی اور ہے۔ حکومت نے آہستہ آہستہ سب کو اندر کردیا باقی دو چار باری کے انتظار میں ہیں’’ بہت اندر گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں‘‘۔ نوٹسز جاری ہوچکے اپوزیشن کی آواز کمزور پڑ گئی ایک بیان پر 17 ترجمانوں کا رد عمل، ترجمانوں کی تعداد بڑھا دی گئی۔ ڈھال بنے ہوئے ہیں بقول شاعر۔ کتنے لوگوں کو یہاں چیخنا پڑتا ہے عقیل ۔ ایک کمزور کی آواز دبانے کے لیے ۔۔ اب دوسرا امتحان درپیش ہے آل پارٹیز کانفرنس میں اجتماعی استعفوں کا معاملہ دب گیا۔ مولانا فضل الرحمان مایوس ہوئے تاہم تالیف قلب کے لیے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے پر اتفاق ہوا۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی پارٹی پوزیشن مضبوط 66 ارکان، حکومت کے 37 ووٹ۔ کامیابی کی پوری امید لیکن اپنے ہاتھوں کے تراشے بت کو توڑتے کیسا لگے گا۔ آصف زرداری لائے تھے کہا کہ خود ہی استعفیٰ دے کر علیحدہ ہوجائو۔ صادق سنجرانی ایک روز پہلے دربار سے ہو آئے تھے۔ اس لیے ڈٹ گئے۔ استعفیٰ نہیں دوں گا جو کرنا ہے کرلو، چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی بڑا ایجنڈا، اپوزیشن کا دوسرا بڑا امتحان ، اس کے مستقبل میں قانون سازی پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بھی ہوتا ہے، صدر بیرون ملک دورے پر جائیںتو چیئرمین سینیٹ صدر مملکت کے فرائض انجام دیتا ہے، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بل قومی اسمبلی میں منظور ہوجائے، سینیٹ میں آکر رک جائے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی اکثریت حکومت کے لیے درد سری کا باعث ہے لیکن کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 53 ووٹ درکار، تحریک پر 44 کے دستخط، 9 ارکان کہاں گئے۔ پہلے بھی دس اِدھر اُدھر ہوگئے تھے۔ راجہ ظفر الحق 46 ووٹ ہی حاصل کرسکے۔ تاہم اس وقت پیپلز پارٹیٰ کے 16 ووٹ سنجرانی کو پڑے تھے ن لیگ کے 30,31 میں 13 آزاد لیکن حمایت یافتہ ارکان شامل ہیں۔ 3 سیانے بیانے بندے ان میں ایک ارب پتی کام میں لگ گئے بندے خریدنے کاٹاسک ملا۔ آزاد ارکان کو گھیرو اور دربار میں لے آئو ایک بار آگئے تو جانے کا نام نہ لیں گے۔ صورتحال بظاہر آسان، جمہوری فارمولے کے تحت تحریک عدم اعتماد کامیاب لیکن جمہوری آمریت فارمولے کے مطابق چانس ففٹی ففٹی، اختر مینگل مائنس، جماعت اسلامی روز اول سے غیر حاضر، بلوچستان کی ہمدردی میں اور کتنے ٹوٹیں گے، وقت آنے پر پتا چلے گا۔ باجی فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے کو دیکھا جاتا ہے۔ حساب لگانے کے بعد خاموش ہوگئیں کہ 66 ارکان 37 ارکان سے بہرحال زیادہ ہیں لیکن کئی کارڈ چلنے باقی ہیں۔ سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں لیکن۔۔ کھل جا سم سم یاد ہے کس کو کون کہے اور کون سنے ۔۔ گونگے اندر چیخ رہے ہیں بہرے باہر بیٹھے ہیں ۔۔ اپوزیشن اس امتحان میں کامیاب ہوگئی تو بڑی جیت ہوگی۔ ورنہ دل ناتواں کو مزید مصائب برداشت کرنے کی خو ڈالنی ہوگی۔ ایک سال یا تین سال کی توسیع، حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرلے گی۔ اپوزیشن اسی طرح ویڈیو ویڈیو کھیلتی رہے گی۔ کچھ نہیں ہوگا چیئرمین نیب کی ویڈیوکا معاملہ دو چار دن چلا پھر ایسا دبا کہ بس دب ہی گیا۔ مریم نوز مزاحمتی تحریک کی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ منڈی بہائو الدین میں بڑا جلسہ کر کے انہوں نے بلا شبہ دھاک بٹھا دی۔ ویڈیو اسکینڈل بھی لے آئیں جس کے نتیجے میں احتساب عدالت کے جج کو عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن ابا جان تو ابھی تک جیل کا کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ جج کا بیان حلفی بریت کی اپیل کا حصہ بنا دیا گیا۔ ری ٹرائل کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، پہلے مطمئن نہیں کر پائے تو اب کیا کریں گے۔ اس کے لیے قانونی ماہرین کی مضبوط ٹیم چاہیے، پتا نہیں ٹیم مضبوط ہے یا دوسری طرف کے لوگ زبردست قوتوں کے مالک ہیں، مریم نواز کو بھی نیب کی جانب سے نوٹس موصول ہوگیا۔ جعلی ٹرسٹ ڈیڈیک بیک یاد آگئی اس پر تو سزا معطل ہوچکی تھی۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کے منفی اثرات نمایاں ہیں، قومی اسمبلی میں گالم گلوچ، دست بگریباں اور اسپیکر ڈائس کا گھیرائو، حکومتی ارکان کے تابڑ توڑ حملے، پروڈکشن آرڈر کا اجرا بحکم بند ’’کرپٹ مجرموں‘‘ کے انٹرویوز بند، ایک جلسہ دکھانے پر چینلوں کے خلاف کارروائی، ایک سال سے این آر او این آر او کی گونج آخر میں اعتراف کہ این آر او کے لیے کسی نے براہ راست رابطہ نہیں کیا۔ تب بھی ہر دورے ہر تقریر میں تین لفظوں کی تین تین بار تکرار، آپ این آر او میں الجھے رہے، ہرروزصرف اپوزیشن کوچور ڈاکوکہ کردل کی بھڑاس نکالنا عوام کے مسائل جوں کے توں، تاجروں کی ہڑتالیں شروع ہوگئیں، کہنے لگے ہڑتالوں کے پیچھے کوئی اور ہے ،کون ہے؟ کوئی نہیں، جس تن لاگے وہ تن جانے، ہڑتالوں کے پیچھے مہنگائی، روٹی 6 روپے سے 15 روپے اور نان 10 سے 20 روپے کا ہوگا تو ہڑتالیںتو ہوں گی۔ ڈالر 160 روپے سے واپس پلٹا 200 تک پہنچنے کے خدشات، سونا 82 ہزار تولہ ایک لاکھ تک پہنچنے کی توقعات،اس پر ٹیکسوں کی بھرمار، مہنگائی تو ہوگی۔ اشیائے خورو نوش مہنگی ہوں گی تو عوام چیخیں گے ان کی چیخیں بند کرنے کے لیے اقدامات کا سوچنا ہوگا۔عوام مہنگائی کے خاتمے اور دیگر بنیادی حقوق و مراعات کے لیے شاید مزید ایک سال کا انتظار نہ کرسکیں، واللہ اعلم بالصواب۔