کچھ دہائیوں کی بات ہے کہ بیٹا باپ کے سامنے بات کر نا تو دور بیٹھ نہیں سکتا تھا، اور آج بیٹا باپ سے نشہ مانگ کر استعمال کرتا ہے، ایک محفل میں بیٹھ کر آج فلمیں دیکھتے ہیں، گانے سنتے ہیں، شادی بیاہ کی تقریبات میں ایک دوسرے سے بڑھ کر شریک ہوتے ہیں،بننے سنورنے کے لیے باپ بیٹے سے اور ماں بیٹی سے سبقت لینا چاہتی ہے، بچے اپنے استاتذہ کے ساتھ برابر میں بیٹھ کر فیس بک وغیر ہ و دیگر سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر پڑھائی سے زیادہ دیگر غیر سنجیدہ اور غیر معذبانہ الفاظ و معافل کا انعقاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کے اندر والدین کی قدر نہیں بلکہ بوڑھے ہو جانے کے بعد اولڈ ایج ہاؤس میں چھوڑ کر سال میں ایک دن کے لیے Happy Mother and Happy Father Day کا انعقاد کر کے انکے حقوق و فرائض پورے سمجھ بیٹھتے ہیں۔ Happy valentine Day کا انعقاد اس خوبی کے ساتھ کیا جاتا ہیکہ اس کو برائی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا ایک اہم جزو سمجھا جانے لگا ہے۔ معاشرے کے اندر نوجوان نسل کے بگاڑ اور بے حسی کی وجوہات کی تلاش میں جب آج تعلیمی نصاب کی ایک کتاب کے مطالعہ کرنے کے بعد انتہائی دکھ اور اپنی بے حسی کا احساس ہوا اور سوئے ہوئے معاشرے کو جگانے کے لیے غیر ارادی طور پر بھی کھڑا ہونے کو من کیا کہ اب بس بہت دیر ہو گئی ، اور نہیں ۔۔۔۔ ہمارے دور میں تعلیمی نصاب کے اندر سیرت مصطفی ﷺ پر مضمون ، سیرت صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیرت اولیا ء اللہ کے مضامین شامل ہوا کرتے تھے۔ اور ساتھ ساتھ اخلاق کو بہتر بنانے کے لیے بھی مضامین کو ہمارے نصاب میں شامل کیا جاتا تھا، اور بڑے خوبصورت انداز میں ہمارے معلم بھی ہم کو سیرت و اقدار کی آگاہی سے روشناس کروایا کر ہمارے اخلاق کی اقدار کو ہمیشہ بلند کرتے تھے۔ مگر آج ہمارے معاشرے کے اندر دن بدن ختم ہوتی انسانی اقدار کے اسباب بہت سے ہیں مثلاََ آج بچوں کو صبح و شام مسجد نہیں بھیجا جاتا کہ قاری صاحب (جو کہ حافظ قرآن اور دین کا عالم ہوتا ہے) ہماری لاڈلی اولاد کو ہمارے گھر میں آکر پڑھائیں، بچے کو کمپیوٹر ز ، ویڈیو گیمز، لیپ ٹاپ وغیر ہ تو لے کر دیا جاتا ہے مگر اس کو کبھی پاس بیٹھا کر اقدار نہیں سیکھائی جاتیں۔ بچے کو ہم انگریزی کے الفاظ فر فر بولتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں مگر قرآن و دین کا فہم اس کے اند ر ہے کہ نہیں اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے۔بچے کو کھیلنے کے لیے ہم بھیجتے ہیں تو اس کو یہ بات سیکھا کر بھیجتے ہیں کہ بیٹا اُس لڑکے کے ساتھ نہیں کھیلنا یہ غریب لوگ ہمارے معیار کے نہیں ہیں، سکول میں بچے کو ہم بھیجتے ہیں کہ وہ سکول جائے مگر نمبروں کی گیم کھیلنے اور دوسروں سے اس میں سبقت کے بہانے حسد کا سبق سیکھانے کے لیے ۔ یہ نہیں کہ ہمارے بچے کو معاشرے کے اقدار کی کچھ سمجھ بوجھ بھی آجائے۔ کچھ اس کے اندر اقدار کو سمجھنے کا شعور بھی آجائے۔ ا ن سب باتوں کو ہم نظر انداز کر کے اس کو جدیدیت کا نام دے کر چھوڑ دیتے ہیں مگر اس کے ردعمل سے بالکل ناواقف و نا پید ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مسلۂ تو ہمارے سکول کے نصاب کا ہے جس کے اندر دن بدن سیرت مصطفی ﷺ ، سیرت صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیرت اولیا ء اللہ کے مضامین کو کم سے کم کرتے کرتے نایاب کر دیا ہے۔ تو ادھر ایک سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس قدر ہم گرِ کر بھی معاشرے کے بگاڑ کا سبب دوسروں کو ٹھہراتے رہتے ہیں۔ نہ کوئی اس بات کو سوچتا ہے کہ یہ کیونکر ہوا ۔۔۔۔؟آج غریب غریب تر کیوں ہوتا جا رہا ہے۔۔۔؟ کیوں ہمارے معاشرے میں کسی کا ادب موجو د نہیں۔۔۔۔؟ کیوں آج معلم و شاگرد فیس بک پر ایک دوسرے کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے ہیں۔۔۔؟ کیوں آج ایک ہی محفل میں بیٹھ کر گھر کی بہو ، بیٹیوں اور بچوں کے ساتھ فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔۔۔۔؟ کیوں ہمارے بچے اپنے والدین کیی اقدار کو بھول گئے ہیں۔۔۔۔؟ کیوں ہمارے بچے اپنوں سے نفرت کرنے لگے ہیں۔۔۔؟ کیوں ہماری آنے والی نسلیں ہم کو دفنا کربھول جاتی ہیں۔۔۔۔؟ کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم اپنے معاشرے، آنے والی نسلوں اور اپنے لیے کو ن سی راہ منتخب کر رہے ہیں۔۔۔۔؟
اس سارے کے سارے نظام کی خرابی کا سبب حکومت کو ہی نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اس میں کچھ نہیں بہت زیادہ قصور تو ہمارا اپنا ہے۔ کیونکہ ہم سب کچھ جانتے پہچانتے ہوئے بھی بے حس پڑے ہوئے ہیں ، کوئی آواز اُٹھانے والا موجو د نہیں ، کوئی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنا کچھ ٹائم وقف کر دے یا پھر کم از کم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر ہی کچھ توجہ دے ۔ اس سارے بگاڑ کے حل کے لیے اگر کچھ سدباب حکومت و عوام مل کر کریں تو شاید کہ ہمارے معاشرے کی اصلا ح ممکن ہو اور ہم اپنے ملکِ پاکستا ن کو صحیح مطلب سمجھ و جان سکیں۔ سب سے پہلے تعلیمی نصاب میں سے رفتہ رفتہ کر کے سیرت محمدی ﷺ کے مضامین اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین اور اولیاء اکرام رحمتہ اللہ کے سوانح حیات و سیرت کے مضامین کو نکالنے کا سلسلہ ختم کر کے اخلاقی و اقداری مضامین کو شامل کی جائے۔انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو، عربی، اسلامیات، فارسی کے زبان کوبھی فروغ و ترویج دی جائے۔میرٹ کے نام پر بچے کو نمبروں کی دوڑ کو ختم کیا جائے ۔ تمام سرکاری و پرائیوٹ سکول و کالجز میں اخلاقی سرگرمیوں کا نفاذ کیا جائے۔اور ساتھ ہی ساتھ یونیورسٹیز کا کوئی سٹینڈر یونیفارم متعارف کروایا جائے۔ اخلاق کی تربیت کو اہم ترجیح دی جائے۔