انسان جب عقل سے نجات پاکر اندھی نفرتوں اور عقیدتوں میں تقسیم ہوئے ریوڑوںمیں تبدیل ہوجائیں تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ اپریل 2016ء کے پہلے ہفتے سے پانامہ دستاویزات کا چرچا ہے۔ یہ دستاویزات درحقیقت ’’مال مسروقہ‘‘ ہیں۔ وکلاء کی ایک بہت بڑی کمپنی میں موجود کاغذات ،جو دُنیا کے کئی ممالک کے انتہائی طاقت ور اور بااثر لوگوں کی اپنی جائز یا ناجائز ذرائع سے کمائی دولت سے ٹیکس بچاتے ہوئے سرمایہ کاری کی تفصیلات پر مشتمل ہیں۔
اس کمپنی کے کسی ملازم نے کمپیوٹرمیں جمع ہوئی ان تفصیلات کی ایک نقل تیار کی۔اسے جرمنی کے ایک اخبار کو دکھایا۔ یورپ کے اس اخبار کو اپنے تئیں یہ تفصیلات شائع کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ خدشہ تھا کہ جن لوگوں کے نام طشت ازبام ہوں گے وہ ہتک عزت کے مقدمات دائر کرنا شروع ہوجائیں گے۔ اخبار ان مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے دیوالیہ ہوجائے گا۔
اپنی جان بچانے کے لئے لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ دُنیا کے بقیہ اخبارات کو بھی طاقت ور سرمایہ داروں کے گھنائونے کرتوتوں کو بے نقاب کرنے کے لئے اپنے ساتھ ملالیا جائے۔ ’’حق گو اور آزاد منش صحافیوں‘‘ کی ایک تنظیم نے بالآخر ان دستاویزات کو ایک ہی دن اپنی رسائی میں آئے اخبارات کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کرلیا۔
ہمیں ہرگز خبر نہیں کہ وکلاء کی ایک فرم سے یہ دستاویزات کس ’’مردِ مجاہد‘‘ نے چوری کی تھیں۔ایک بات اوربھی عیاں ہے اور وہ یہ کہ سچ کے جس گمنام سپاہی نے جو دستاویزات فراہم کیں، انہیں ہوبہو نہیں چھاپاگیا۔ کچھ نام اچھالے گئے مگر کئی ایک کو نظرانداز بھی کردیا گیا۔
چونکہ ہم میں سے کسی ایک کے پاس بھی کمپیوٹر کی وہ ڈسک موجود نہیں جس میں تمام تر تفصیلات موجود تھیں، اس لئے ہم ہرگز فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کونسے نام کس خاص مقصد کے تحت چھپائے گئے ہیں اور محض چند ناموں کو ’’نظرِ کرم‘‘ کا مستحق کیوں سمجھا گیا۔
دُنیا کے کسی بھی مہذب ملک کی عدالت میں چرائی ہوئی ان دستاویز کی بنیاد پر بدنام کئے لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی راہ نکالنا ناممکن نہیں تو ایک مشکل ترین کام ضرورہوا کرتا ہے۔
روس کے صدر پیوٹن اور چین وسعودی عرب کے کئی تگڑے لوگ ویسے بھی خوش نصیب ہیں کیونکہ وہاں کے شہریوں کی بے پناہ اکثریت کو خبر ہی نہیں کہ ان کے نام پانامہ دستاویزات کے ذریعے دنیا کے سامنے لائے گئے ہیں۔ انہیں خبر ہو بھی جائے تو ان ممالک میں ’’متعصب اخبارات‘‘ میں چھپی تفصیلات کو ’’دشمن کی سازش‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی ’’سازش‘‘ میں ملوث مقامی شہریوں کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے۔ صحافی وہاں کے اپنی اوقات میں رہتے ہیں۔
بہرحال ان دستاویزات کی بدولت پاکستان میں ان دنوں خوب رونق لگی ہوئی ہے۔ 400سے زائد پاکستانیوں کے نام ان دستاویزات کی بدولت ہمارے سامنے آئے تھے۔اس بڑی تعداد میں سیاست دان صرف تین افراد تھے۔ ہماری توجہ مگر شریف خاندان پر مرکوز ہوچکی ہے۔ کیونکہ نواز شریف اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے ہمارے ہاں منتخب وزیر اعظموں کو حساب ہمیشہ دینا پڑتا ہے۔ایک وزیر اعظم تو پھانسی بھی چڑھا۔ دوسرے کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیا گیا۔ تیسرا وزیر اعظم بھی نااہل ہوگیا تو پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی ہمیشہ کے لئے مسلم ہوجائے گی۔
نواز شریف کی ان دستاویزات کی بدولت ممکنہ نااہلی بھی لیکن قوم کی مبینہ طورپر ’’لوٹی وہ دولت‘‘ قومی خزانے میں کبھی واپس نہیں لائے گی جس کے ذریعے لندن کے ایک مہنگے علاقے میں فلیٹس خریدے گئے تھے۔ تاریخ خود کو دہرائے گی۔ کیونکہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نے سوئس حکومت کو خط لکھ دیا تھا۔ آصف علی زرداری کے اس ملک کے بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے 60کروڑ ڈالروں کا مگر ابھی تک سراغ تک نہیں مل پایا ہے۔
عدالتوں اور ٹی وی سکرینوں پررونق البتہ خوب لگی رہی۔ ہمیں آصف علی زرداری کی ذلت ورسوائی سے بہت مزا آیا۔ 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اس رسوائی کی قیمت بدترین شکست کے ذریعے ادا کی۔ اب باری نواز شریف اور ان کے بچوں کی ہے۔
شہباز شریف البتہ خوش نصیب ہیں کہ اس سارے شور شرابے سے اب تک محفوظ ہیں۔ ان کے بھائی نااہل ہو بھی گئے تو وہ بدستور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ نواز شریف کی ممکنہ نااہلی کے بعد نیا وزیر اعظم ہونے والا اپنے تحفظ کے لئے ان کی شفقت کا ہمیشہ محتاج رہے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) شاید ان کی وجہ سے آئندہ انتخابات میں ویسی شکست سے بھی خود کو محفوظ کرلے گی جو 2013ء میں پیپلز پارٹی کا مقدر بنی تھی۔
وکلاء کی ایک فرم سے چرائی دستاویزات کی بنیاد پر بنائی خبروں کے نتیجے میں نواز شریف کی رسوائی ومشکلات کا مقابلہ ذرا اس خبر سے کرلیجئے جسے حکومت نے ایک نہیں تین بار قطعی طورپر ’’من گھڑت‘‘ قرار دیا تھا۔ اس ’’من گھڑت‘‘ خبر کی تردید کے باوجود شدید اصرار اس بات پر ہورہا ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے ذریعے قومی سلامتی سے جڑے مفادات کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قائم تین اداروں کے نمائندے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے اب تحقیق یہ کررہے ہیں کہ ایک ’’من گھڑت‘‘ خبر کے ذریعے پاکستان کو ’’بدنام‘‘ کرنے کا منصوبہ کس نے بنایا اور اسے کن مراحل سے گزار کر پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔
’’من گھڑت‘‘ خبر کی تحقیق کرنے والی کمیٹی ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔پاکستان کی محبت میں مبتلا بہت ہی چوکس صحافیوں کے ذریعے البتہ یہ بات پھیلادی گئی ہے کہ اگر وزیر اعظم خود نہیں تو ان کا کوئی نہ کوئی بہت ہی بااعتماد معاون یا قریب ترین عزیز اس من گھڑت خبر کے ذریعے پاکستان کے قومی سلامتی سے جڑے مفادات کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ضرور ہے۔
اب اس شخص کی تلاش جاری ہے۔ اس کی نشان دہی ہوگئی تو ’’غداری‘‘ کے الزامات کے تحت مقدمہ چلانا بھی ضروری ہوجائے گا۔یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام تک بھی ضرور پہنچے گا کیونکہ اس میں ممکنہ طورپر ملزم ٹھہرائے فرد یاافراد کی کمر میں درد ہوا تو کوئی ہسپتال علاج کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ علاج کے لئے غیر ملک جانے کی اجازت دینے کا توسوال ہی نہیں اُٹھتا۔
فرق صاف ظاہر ہے۔ کسی گمنام مجاہد کی جانب سے ایک لاء فرم سے چرائی دستاویزات کی بنیاد پر ایک منتخب وزیر اعظم کو ذلیل ورسوا کر دوتو ہمیں بہت لطف محسوس ہوتا ہے۔ ریاست کے دائمی اداروں میں موجود افراد کو ’’من گھڑت‘‘خبر کے ذریعے البتہ ذرا سی بھی کوئی تکلیف پہنچے تو معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس حقیقت کو دریافت کرلینے کے بعد اب میں اپنے ٹی وی کاریموٹ اٹھارہا ہوں۔ سپریم کورٹ میں پانامہ دستاویزت کے حوالے سے جمعرات کے دن بھی کارروائی شروع ہونے ہی والی ہے۔