لاہور (ویب ڈیسک) معروف صحافی رانا مبشر کا کہنا ہے کہ پندرہ سال میں اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اس کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام معاملات سات آٹھ ماہ میں حل ہو جائیں گے۔گذشتہ حکومتوں نے جو قرضے لیے تھے اب وہ واپس تو کرنے ہی ہیں۔ اور یہاں پر ایک بہت اہم چیز ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری 8 ماہ میں اس طرح کے اقدامات اٹھائے گئے تھے کہ اگلی جو بھی حکومت بھی آئے اس کے لیے کام سیدھا کرنا مشکل ہو جائے۔ اور جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو حکومت سنبھالنے کے بعد ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا تاہم یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل ان تمام چیزوں کی تیاری کیوں نہیں کر رکھی۔خیال رہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پہلی بار آئی ہے۔ عمران خان کو 22 سال کے بعد اقتدار ملا تاہم حکومت سنبھالتے ہی بے تحاشہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا،گذشتہ حکومتیں بہت زیادہ قرضے بھی لے چکی تھیں جب کہ ان تمام حالات میں مہنگائی میں ایک دم بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ 25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کا پر عزم ایجنڈ‘ پیش کیا تھا جس میں حکومت آنے کی صورت میں پہلے 100 روز میں پارٹی کی جانب سے شروع کیے جانے والے کام پر روشنی ڈالی گئی تھی. اس ایجنڈے کی نمایاں خصوصیات میں وفاق کے زیر انتظام قبائی علاقوں کا خیبرپختونخوا سے جلد انضمام، پنجاب کی 2 حصوں میں تقسیم اور علیحدگی پسند بلوچ راہنماﺅں سے مصالحت شامل تھی. اس کے علاوہ 100 روزہ ایجنڈے میں کراچی کے لیے ترقیاتی پیکج کا آغاز اور غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام کے ساتھ ساتھ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات بھی شامل تھے.تحریک انصاف کی حکومت کی معاشی پالیسی کے اہم نکات بیان کرتے ہوئے اسد عمر جو اس اب وزیر خزانہ ہیں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت ایک کروڑ ملازمتیں دینے، مینوفکچرنگ بحال کرنے، تیزی سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری شعبے میں اضافہ، 50 لاکھ گھر کی تعمیر کے لیے نجی شعبے کا تعاون، ٹیکس اصلاحات اور ریاستی اداروں کی بحالی کا کام کرے گی. تاہم انتخابات کے بعد وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے سے قبل ایک رسمی پریس کانفرنس میںاسد عمر نے کہا تھا کہ پہلے 100 دنوں میں عوام کو کسی ریلیف یا سبسڈی کی پیشکش کرنا لولی پوپس دینے کے مترادف ہے.