دبئی: ٹیسٹ میچز کے پانچویں روز ہتھیار ڈالنے کی بیماری شدت اختیار کرگئی۔
پیر کو ابوظبی ٹیسٹ میں آخری روزپاکستانی ٹیم 136رنز کا معمولی ہدف بھی حاصل نہ کر سکی اور 114رنز پر ڈھیر ہوگئی، سری لنکن اسپنرز رنگانا ہیراتھ اور دلروان پریرا کے سامنے میزبان بیٹسمین بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے،اگرچہ مصباح الحق اور یونس خان کی غیر موجودگی میں پاکستانی بیٹنگ لائن تشکیل نو کے عمل سے گزر رہی ہے لیکن ان دونوں تجربہ کار سینئرز کے ہوتے ہوئے بھی میچ کے فیصلہ کن لمحات میں کھلاڑیوں کے ہاتھ پیر پھول جانے کی بیماری تواتر کے ساتھ نظر آتی رہے۔
ویب سائٹ ’’کرک انفو‘‘ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں پاکستان نے 4 میچز میں آخری روز تمام وکٹیں گنواتے ہوئے شکست کو گلے کا ہار بنالیا،گرین کیپس نے اس نوعیت کی کارکردگی دنیا کے مختلف میدانوں پر دہرائی، اس دوران پیسرز یا اسپنرز اور کبھی دونوں بھاری پڑتے رہے، گزشتہ سال اگست میں برمنگھم ٹیسٹ پہلی مثال ہے۔ پاکستان سنبھل کر کھیلتا تو میچ ڈرا کیا جا سکتا تھا لیکن ریورس سوئنگ کا سامنا کرتے ہوئے پوری ٹیم201رنزپر ہمت ہار گئی، میزبان انگلینڈ نے فتح کے شادیانے بجائے، اسی نوعیت کی دوسری ناکامی ہیملٹن ٹیسٹ میں ہوئی، اس بار پاکستان نے 229رنز کے بدلے میں تمام 10وکٹیں گنواکر فتح نیوزی لینڈ کی جھولی میں ڈال دی، یہاں کیوی پیس اور اسپن اٹیک کے سامنے مہمان ٹیم تذبذب کا شکار رہی کہ فتح کیلیے جائیں یا ڈرا کی کوشش کریں۔
برسبین ٹیسٹ میں آخری روز2وکٹیں 68رنز پرگنوا کر ناکامی کا منہ دیکھا، میلبورن میں ڈرا ممکن تھا، مگر ناتھن لیون نے مردہ پچ پر مڈل آرڈر کی قلعی کھول دی اور پاکستان نے 163رنز بناتے ہوئے تمام وکٹوں کا نقصان اٹھالیا، سڈنی ٹیسٹ میں گرین کیپس نے 9وکٹیں 189رنز پرکھونے کے بعد شکست کا منہ دیکھا، اس میچ میں اسپنرز اور پیسرز کے سامنے بہتر مزاحمت میچ ڈراکرسکتی تھی۔ کنگسٹن ٹیسٹ کے آخری روز 3 وکٹیں گنواکر گزشتہ سال ٹیسٹ میچ کے آخری روز واحد کامیابی سمیٹی، مگر اگلے ہی میچ میں 188کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے پوری پاکستانی ٹیم81رنز پر پویلین لوٹ گئی،ویسٹ انڈین فتح کا راستہ بنانے والے بولرز میں شینن گبریل، الزاری جوزف اور جیسن ہولڈر شامل تھے۔
ابوظبی ٹیسٹ میں پاکستان نے لورینک کی حامل سری لنکن ٹیم کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے اس نے ایک بار پھر شائقین کے دل توڑ دیے، ایک سال میں مختلف کنڈیشنز اور بولرزکے سامنے سرنگوں ہونے والی ٹیم کی کارکردگی نے ثابت کردیا کہ دباؤ بڑھتے ہی اوسان خطا ہونے لگتے ہیں،آخری روز بیٹنگ کی تباہی کی بنیاد زیادہ تر اوپنرز ہی رکھتے رہے ہیں۔ مذکورہ بالا 7 شکستوں میں پاکستان نے 6مختلف افتتاحی جوڑیاں میدان میں اتاریں، گزشتہ ایک سال میں مصباح الحق اور یونس خان بھی تباہ کاریوں کو ٹالنے میں ناکام رہے۔ اظہرعلی،اسد شفیق اور سرفراز احمد بھی ان شکستوں کا بوجھ اٹھانے والوں میں شامل رہے ہیں،بابر اعظم ان میں سے 6اور سمیع اسلم5کے ساجھے دار تھے۔
ابوظبی میں سری لنکا کے ہاتھوں شکست سے واضح ہوگیا کہ گزشتہ سال کے تجربوں سے سینئرز اور جونیئرز کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ اس مسئلے نے ٹیم مینجمنٹ کو بھی پریشان کیا ہوا ہے اور وہ حل تلاش کرنے کیلیے سر جوڑے بیٹھی ہے، آئی لینڈرز کیخلاف سیریز کا دوسرا اور آخری ٹیسٹ جمعے کو دبئی میں شروع ہوگا،اس ڈے اینڈ نائٹ میچ کیلیے دونوں ٹیموں کی تیاریاں بھی مختلف ہونگی،کرکٹرز رات کو گلابی گیند سے نیٹ پریکٹس کرتے ہوئے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرینگے۔
پاکستان ٹیم نے گزشتہ روز آرام کیا، بدھ کی دوپہر3بجے دبئی کی آئی سی سی اکیڈمی میں پریکٹس سیشن کا آغاز ہوگا،پہلے میچ میں شکست کے بعد ہیڈ کوچ مکی آرتھر کیلیے میزبان کھلاڑیوں کو ناکامی کے خوف سے نکالنا ایک چیلنج ہے،وہ پہلے ہی کہہ چکے کہ اگلے میچ سے قبل پہلی شکست کے دباؤ سے کیسے نکلنا ہے اس معاملے پر حکمت عملی بنائیں گے۔