بلوچستان میں میڈیا ایک بار پھر نشانے پر ہے۔ اس مرتبہ صوبے کے درجنوں علاقوں میں اخبارات کی ترسیل بند ہوئے دو ہفتوں سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے جبکہ خطرات کے پیش نظر صوبے کے درجنوں پریس کلبوں پر تالے لگ چکے ہیں جس کی وجہ کالعدم علیحدگی پسند تنظیوں کی وہ دھمکیاں ہیں جن میں انہوں نے صحافیوں، ہاکروں اور اخبارات کی ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹروں سے کہا ہے کہ اگر انہیں مناسب کوریج نہ دی گئی تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ ایسی ہی ایک دھمکی پر عمل کرتے ہوئے ان دہشت گردوں نے 26 اکتوبر کے روز کراچی سے متصل صنعتی علاقے حب میں پریس کلب پر دستی بم پھینکا۔ تاہم اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اسی روز تربت میں اخبارات اور رسائل فروخت کرنے والی ایک دکان پر دستی بم حملے میں پولیس کانسٹیبل سمیت 9 افراد زخمی ہوگئے اور 26 اکتوبر ہی کے روز آواران میں اخبار لے جانے والی گاڑی پر حملہ کرکے اس کے ٹائر برسٹ کردیئے گئے۔
مختلف علاقوں میں صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں نے صورتحال اس قدر سنگین بنا دی کہ اپنی جان کو درپیش خطرات کے پیش نظر صوبے کے کچھ علاقوں میں صحافیوں نے نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی چھوڑ دی بلکہ منظرعام سے بھی ہٹ گئے ہیں۔ بلوچستان میں میڈیا کے خلاف تشدد کا عنصر کوئی نیا قصہ نہیں بلکہ صوبے کے حالات میں خرابی کے فوری بعد ہی صحافی نشانے پر آگئے۔ 2006 سے اب تک صوبے میں قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 40 تک پہنچ گئی ہے جن میں کچھ صحافی بم دھماکوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، کچھ کو اغواء کے بعد قتل کرکے ان کی لاشیں پھینکی گئیں اور کچھ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے تیسرے بڑے شہر خضدار میں تو 2012 کے دوران ایک مسلح کالعدم تنظیم نے صحافیوں کی باقاعدہ ہٹ لسٹ پرنٹ میڈیا پر جاری کرنے کے بعد اس پر عمل کرتے ہوئے 5 صحافیوں کو قتل اور ایک صحافی کے 2 کمسن بچوں جبکہ دوسرے صحافی کے بھائی کو قتل کردیا۔ لیکن اب تک کسی ایک صحافی کے قاتل کو بھی گرفتار کرکے قرار واقعی سزا نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے بلوچستان کے صحافیوں میں عدم تحفظ کا احساس شدید تر ہوگیا ہے۔
بلوچستان میں ہمیشہ سے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے صحافیوں کو اپنے متعلق بیانات اور خبریں اپنی مرضی سے شائع کروانے کےلیے دباؤ میں رکھا اور اس مقصد کےلیے انہوں نے صحافیوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ دوسری جانب اکتوبر 2012 میں بلوچستان ہائی کورٹ نے کالعدم تنظیوں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی عائد کردی جس پر عمل نہ کرنے کی پاداش میں کئی صحافیوں پر مقدمات تک بنائے گئے۔ اس صورتحال نے صحافیوں کو دوہرے عذاب میں مبتلا کردیا، لیکن اپنی جانوں کو لاحق شدید خطرات سے دوچار صحافتی برادری نے کالعدم تنظیموں کے بیانات شائع کرنے ہی میں عافیت جانی کیونکہ ہائی کورٹ انہیں محدود سزا دے سکتی ہے، جبکہ کالعدم تنظیمیں جان سے مارسکتی ہیں۔
اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کالعدم تنظیموں نے صحافیوں پر حکومتی بیانیے کو اجاگر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اخبارات کی ترسیل اور صحافتی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد صوبے کی مصیبت زدہ صحافتی برادری مزید مشکلات کا شکار ہوگئی ہے، جن سے نکلنے کےلیے کوئی بھی ان کی مدد کو تیار نہیں۔ دوسری جانب حکومت بلوچستان نے صحافیوں کے تحفظ اور اخبارات کی ترسیل کےلیے حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی تو کرائی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کس حد تک، کس کس کو اور کہاں کہاں تحفظ دے گی؟
بلوچستان کے اکثر مقامی صحافی تنخواہوں اور دیگر بنیادی سہولیات کے بغیر رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں، جن کی اکثریت نے صحافت بھی نہیں پڑھی اور نہ ہی مناسب تربیت لی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، طویل عرصے تک صحافتی میدان میں خدمات کی انجام دہی کے سبب ان کے پاس تجربہ ہے جس کی بنیاد پر وہ صوبے کے مسائل، منفرد اہمیت اور وہاں جاری ناانصافیوں کو اجاگر کرتے ہیں جس کے دوران انہیں سرکاری اداروں، بیوروکریسی، قبائلی سرداروں، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا اور سیاست دانوں کے دباؤ کا سامنا بھی ہے۔
یہ دباؤ اتنا سخت ہے کہ چند بیورو کریٹس اور سیاست دانوں نے راقم الحروف کا نام محض اس لیے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت فورتھ شیڈول میں ڈلوایا کیونکہ انہیں راقم کی چند خبریں ناگوار گزریں جن سے اعلیٰ حکام کے ہاتھوں ان کی سبکی ہوئی تھی۔ دو سال تک در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بالآخر گزشتہ ماہ ہی راقم کا نام فورتھ شیڈول سے نکل سکا جس کےلیے کئی پاپڑ بیلنے پڑے اور بہت کچھ سہنا پڑا۔
بلوچستان میں میڈیا کے خلاف اٹھنے والی حالیہ لہر نے صوبے کی خوفزدہ صحافت کو مزید مشکلات کا شکار بناکر صوبے میں ابلاغ عامہ کا پہیہ روک دیا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف صحافی بلکہ عام شہری بھی پریشانی میں مبتلا ہیں کیونکہ پریس کلبوں پر تالے لگنے اور اخبارات کی ترسیل رکنے کے سبب لوگوں کی آواز دب گئی ہے، جس نے صوبے میں گھٹن کا ماحول پیدا کردیا ہے جو کسی بھی ریاست اور اس کے شہریوں کے حق میں بہتر نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام اور میڈیا مالکان صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس سلسلے میں کوئی ایسا حل تلاش کریں جس سے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور صوبے میں صحافت کا پہیہ بھی چلنے لگے۔