ایک آٹھ سال کا بچہ مسجد کے ایک طرف کونے میں اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا؟ کپڑوں میں پیوند لگا تھا مگر نہایت صاف تھے۔اس کے ننھے ننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔ بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے اور وہ بالکل بے خبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا اللہ پاک سے کیا مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے ابو مر گئے ہیں ان کے لئے جنت میری امی ہر وقت روتی رہتی ہے اس کے لئے صبر میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ہے اس کے لئے رقم اجنبی نے سوال کیا کیا آب سکول جاتے ہو؟ بچے نے کہا۔ ہاں جاتا ہوں۔ اجنبی نے پوچھا کس کلاس میں پڑھتے ہو؟ نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا، ماں چنے بنا دیتی ہے وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں۔ بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں ہمارا یہی کام دھندا ہے۔ بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا۔ اس شخص نے پوچھا کہ تمہارا کوئی رشتہ دار؟ امی کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا اور امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی، لیکن انکل جب ہم کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں۔امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو وہ کہتی ہیں میں نے کھا لیا ہے۔ اس وقت لگتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جائے تو تم پڑھو گے؟ بچہ: بالکل نہیں کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا پاس سے گزر جاتے ہیں۔ اجنبی حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔ پھر اس نے کہا کہ ہر روز اسی مسجد میں آتا ہوں، کبھی کسی نے نہیں پوچھا یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے۔ مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا بچہ زور زور سے رونے لگا۔ انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی بن جاتے ہیں۔ میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ایسے کتنے معصوم ہوں گے جو حسرتوں سے زخمی ہیں۔ بس ایک کوشش کیجیئے اوراپنے اردگرد ایسے ضروت مند یتیموں اور بے سہارا کو ڈھونڈئے اور ان کی مدد کیجئے۔ مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوری دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ہو۔ خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں۔ جزاک اللہ