لاہور (ویب ڈیسک )آصف علی زرداری کی پیش گوئی غلط ثابت ہوگی۔ عمران حکومت یہ مدت ہی نہیں کرے گی بلکہ اگلے پانچ سال بھی عمران خان ہی نظر آتا ہے۔ بزرگوں کوفی الحال متبادل لیڈر شپ میسر نہیں۔ ن کی قیادت لانے اور جمانے میں وقت درکار ہے۔ بلاول پر محنت کی جا سکتی ہے۔
نامور کالم نگار طیبہ ضیاء اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ بلاول بھٹو کے والد کی وجہ سے خدشات موجود ہیں۔ مریم نواز نے اس قدر کڑواہٹ اگل دی ہے کہ نظریہ خلائی مخلوق تبدیل کرنے میں مقبولیت کھو دے گی۔ خوشامدی مشیروں نے باپ بیٹی کو ہوا کے گھوڑے پر سوار تو کرادیا اب نیچے کس منہ سے اتریں؟ آجکل ویسے بھی زبان بندی ہے اور اگلے کئی سال اسی حالت مراقبہ میں گزرنے کا امکان ہے۔ پہلوں نے کئی باریاں لگا لیں۔ دس سال تک صبر کریں۔ عمران حکومت کو سنبھلنے اور سمجھنے کے لئے دس برس تو لگیں گے۔ عمران خان کا جنون اترنے میں کم از کم دس سال تو درکار ہیں۔ ابھی سو دن کے ہنی مون کا کریڈٹ اپنے گھر میں ہی رکھ لیا۔ ابھی پانچ سال پڑے ہیں۔ کمالات تو ابھی شروع ہونے ہیں۔ تجاوزات کو لپیٹ میں لینے سے پہلے ان غریبوں کو متبادل تو دیا ہوتا ؟غریب کی روزی چھیننے سے پہلے ان کے روزگار کا بندوبست تو کیا ہوتا ؟ بادشاہ سلامت کی ایک انگلی کے اشارے سے غریبوں کے پیٹ پر لات مار دی جاتی ہے۔ تجاوزات گرائی جا رہی ہیں۔ دیکھنے اور سننے میں حکم دلکش معلوم ہوتا ہے لیکن یہ کام پچھلی حکومتیں کریں تو عمران کی اپوزیشن غریب کا رونا روتی تھی ؟
نہ پہلوں نے نہ موجودہ حکومت نے غریب کو متبادل پیش کیا۔ پہلے کوئی بندوبست تو پیش کیا ہوتا ؟بس گرا دو اٹھا دو پھینک دو۔۔۔؟بادشاہ لوگ ہیں۔ عوام کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی بجائے گورنر ہائوس کی دیواریں گرائی جانے جیسے اضافی اور فضول کام شروع کر دئے ؟دیواریں ہی گرانا ہیں تو غربت و بیروزگاری کی دیواریں گرائی جایئں۔ بیروزگار بھوکے عوام کو گورنر ہائوس سے کیا دلچسپی ؟ انگریزوں کی درسگاہوں سے مستفید تعلیم یافتہ دقیانوسی سوچ نے اس ملک کو بھی کنفیوز کر رکھا ہے۔ ناعقائد درست نہ ماڈرن ازم اور لبرل ازم میں تفریق کی جا سکی۔ جس کو پرکھو وہی نظریہ ضرورت کے ہاتھوں خادم رضوی بنا ہوا ہے۔ آدھا سیاسی آدھا سماجی۔بابا فرید الدین گنج شکر نے روٹی کو چھٹا رکن فرمایا تو کیا غلط کیا؟ آج نفس کا معاملہ روٹی سے بھی تجاوز کر چکا لیکن حاکم وقت تجاوزات سے اس چھٹا رکن کو مزید تکلیف دہ صورتحال سے دوچار کرنا چاہتاہے ؟عمران خان کے لاہور والے گھر کو گرا کر نیا گھر تعمیر کرایا گیا۔ لگتا ہے یہ وہم بھی ڈال دیا گیا ہے کہ لاہور گورنر ہائوس کی دیواریں بھی ان کی حکومت کے لئے برا شگون ثابت ہو سکتی ہیں ؟
وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار بھی روحانی حکم سے لگائے گئے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ عثمان بزدار کو شکایت ملی کہ کسی نے بشریٰ بی بی کی بیٹی سے ناروا سلوک کیاہے،کیا چیف ایگزیکٹو عثمان بزدارکسی پولیس افسرکوبلاکرپوچھ نہیں سکتا؟ عمران خان کہتے ہیں عثمان بزدار جیسا وزیراعلیٰ پنجاب کو کبھی ملا ہی نہیں۔۔۔خان صاحب کی نظر کرم جب کسی پر ہو جا ئے تو کمال ہیں اور جب نظر ہٹ جائے تو با کمال ہیں۔گورنر ہائوس کی دیواریں گرانے سے غریب اور بیروزگارکو کیا ڈھارس ملے گی ؟ قومی ورثہ کمیشن کے چیئرمین و وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اس تاثر کو قطعی طو رپر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر ہائوس لاہور کی کسی بھی عمارت کو نہ تو گرایا جا رہا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔گورنر ہائوس لاہور کی چار دیواری کی جگہ خوبصورت آہنی جنگلے کی تنصیب کی جائے گی جس کے باعث سیاحوں کے لئے گورنر ہائوس کی عمارت میں دلچسپی اورمزید کشش پیدا ہو گی۔انہوںنے کہا کہ گورنر ہائوس کو جاذب نظراور مزید خوبصورت بنانے کے لئے اس میں نہ صرف آرٹ گیلری اور میوزیم قائم کیاجارہا ہے بلکہ وہاں پر بوٹینیکل گارڈن بھی بنایا جائے گا۔ شفقت محمود نے مزید کہا کہ نتھیا گلی گورنر ہائوس کو ہوٹل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
جبکہ کراچی اور پشاور گورنر ہائوسز میں بھی مناسب تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ لوگوں کو ان ہائوسز تک رسائی میں آسانی اور سہولت میسر ہو۔۔۔اس منسٹر سے بندہ پوچھے اس ملک کا اہم مسئلہ گورنر ہائوسز تھے ؟ مہنگائی بیروزگاری اور جہالت کی راہ میں گورنر ہائوسز کی دیواریں حائل تھیں ؟ لگتا تو یہی ہے جیسے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ گورنر ہاؤسز ہیں۔ ماضی میں پارلیمنٹ اور پی ٹی وی کی دیواریں توڑنے کا تجربہ آج گورنر ہائوسز کی دیواریں گرانے کے کام آ رہا ہے۔ بنی گالہ محل کی دیواریں گرانے کی امید بھی رکھی جائے کہ عام شہری اپنے وزیراعظم کا ذاتی محل دیکھنے کا بھی مشتاق ہے ؟ عمران خان ملک کو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے اثاثے واپس دلانا چاہتے ہیں، نظام کو شفاف بنانے کے متمنی ہیں۔ ریاست مدینہ کے نعرہ سے تو یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان پاکستانیوں کو وہ نظام دینا چاہتے ہیں جس کی مثال خلفائے راشدین نے اپنی زندگیوں سے پیش کی، وہ نظام جس کا اظہارامیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی آخری خواہش میں کیا، آپ نے فرمایا ’’مجھے نئے کپڑوں میں دفن نہ کیا جائے! کیوں کہ نئے کپڑوں کے زیادہ مستحق وہ ہیں۔ جن کے تن پر لباس نہیں پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا اور خلفائے راشدین کے نظام کا مستحق ہے، وہ نظام جس کا اظہارامیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی آخری خواہش میں کیا، آپ نے فرمایا ’’مجھے نئے کپڑوں میں دفن نہ کیا جائے! کیوں کہ نئے کپڑوں کے زیادہ مستحق وہ ہیں۔ جن کے تن پر لباس نہیں پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا اور خلفائے راشدین کے نظام کا مستحق ہے،کچھ تو جھلک نظر آنی چاہئے تھی ؟ اس نظام کی مثال اپنی ذات، خاندان اور اطراف سے شروع ہوتی ہے۔ انسان کا نجی کردار داغدار ہو جائے تو ایک سجدے میں معافی مل سکتی ہے مگر جب پورا ملک داغدار کر دیا جائے تو اس کو دلدل سے نکالنے کے لئے نیک حکمران اور صاف وزراء کی ایک ٹیم ناگزیر ہے۔ اسلامی نظام ہو یا نظام جمہوریت، نظام ایک شخص تبدیل نہیں کر سکتا، اس کے ساتھ ایک ٹیم ہوتی ہے جو نظام پر عمل کر کے دکھاتی ہے۔ وہ شخص خواہ اللہ کا نبی کیوں نہ ہو اسے بھی اللہ کی مدد کے علاوہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی جیسے رفقاء کی مدد، تعاون اور مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیسا لیڈر ہے جو بغیر سوچے سمجھے پروگرام پیش کر دیتا ہے؟جب تک حکومت کا جادو چل رہا ہے ، اپوزیشن کی پیش گوئیاں بیکار ہیں۔ ن کی قیادت کی ایجاد تک صبر کریں۔