اسلحہ کی تجارت کی مخالف مہم CAAT نے انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ سال برطانیہ نے اسرائیل کو 22 کروڑ دس لاکھ پونڈ کی مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کے لائسنس جاری کئے تھے، جو اب تک ریکارڈ ہے۔ 2016 میں برطانیہ نے اسرائیل کو آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ پونڈ کا اسلحہ فروخت کیا تھاجب کہ اس سے ایک سال قبل صرف دو کروڑ پونڈ کا اسلحہ اسرائیل کو بر آمد کیا تھا۔ یوں گذشتہ پانچ برس میں برطانیہ نے اسرائیل کو 35 کروڑ پونڈ کا اسلحہ اور فوجی سازو سامان فروخت کیا ہے۔
گذشتہ سال اسرائیل کو برطانیہ نے جو اسلحہ فروخت کیا تھا اس میں مزائیل اور ٹینک شکن گولوں کے علاوہ وہ بندوقیں اور ان کی گولیاں فروخت کی گئی تھیں جو اسرائیلی فوج غزہ کے فلسطینیوں پر فائرنگ کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت میں اس غیر معمولی اضافہ کے پیچھے دراصل حکمران ٹوری پارٹی میں فرینڈس آف اسرائیل کی تنظیم کی مہم کار فرما ہے۔ یہ تنظیم اور اسرائیلی لابی برطانوی حکومت پر دبائو ڈالتی رہی ہے کہ اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ اور جدید ترین اسلحہ فروخت کیا جائے کیونکہ اسے ” فلسطینی دھشت گردی” کا شدید خطرہ ہے۔
پچھلے دنوں فلسطینیوں کی زبردستی زمین چھین کر انہیں ان کے مکانات سے بے دخل کرنے کی سترویں برسی پر غزہ کے فلسطینیوں نے ”گھر واپسی” کے نام سے اسرائیل کی سرحد تک پر امن مارچ شروع کی تھی اس پر اسرائیلی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کر کے ایک سو بارہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا، اسرائیلی فوج نے جو اسلحہ استعمال کیا تھا اس میں برطانیہ کی طرف سے فروخت کیا جانے والا اسلحہ شامل تھا۔
اس پس منظر میں ولی عہد شہزادہ چارلس کے بڑے بیٹے شہزادہ ولیم اسرائیل کے دورہ پر جا رہے ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہزاد ولیم کا اس موقع پر اسرائیل کا دورہ نہایت غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ کیونکہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہلاکتوں کی وجہ سے فلسطینیوں میں غصہ کا لاوا بھڑک رہا ہے۔
اسرائیل کی سرحد تک پُر امن مارچ کرنے والے نہتے فلسطینیوں پر فائرنگ کو اسرائیل کے وزیر اعظم نیتھن یاہو نے اسرائیلی فوج کا دفاعی اقدام قرار دیا تھا، جب کہ برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریسا مے نے اس فائرنگ کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
اسلحہ کی تجارت کے خلاف مہم کے اینڈریو اسمتھ نے کہا ہے کہ پچھلے دنوں غزہ کے پُر امن مظاہرین پر فائرنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے عوام کو کس بری طرح سے اجتماعی سزا دی ہے۔
برطانوی حکومت نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کو اسلحہ فروخت کیا جارہا ہے۔ اینڈریو اسمتھ نے کہا ہے کہ شہزادہ ولیم کا اسرائیل کا دورہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کے پس منظر میں ہورہا ہے، اگر شہزادہ ولیم نے اپنے دورہ میں اس قتلِ عام کی مذمت نہیں کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برطانیہ، شاہی خاندان کے ذریعہ اسرائیلی فوج کے قتلِ عام کی تائید اور حمایت کر رہا ہے۔ شہزادہ ولیم کے اس دورہ سے مشرق وسطیٰ میں ناراضگی کے علاوہ خود برطانیہ میں مسلمانوں میں ناخوشی اور احتجاج کی لہر بھڑکنے کا خطرہ ہے۔