لاہور (ویب ڈیسک) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعلیٰ اعزاز دیے جانے کے خلاف غم و غصہ نظر آرہا ہے۔ کسی کو پاکستان سے دشمنی نظر آرہی ہے۔ کوئی اس کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دے رہا ہے۔ کسی کی رائے میں ڈرائیونگ ڈپلومیسی کا جنازہ نکل گیا ہے۔ نامور کالم نگار مزمل سہروردی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔میری رائے میں ہم حقائق کو نظر انداز کر کے تجزیہ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن کو آج متحدہ عرب امارات پر اعتراض ہے۔ انھیں یہ کیوں بھول رہا ہے کہ ا س سے پہلے سعودی عرب بھی مودی کو سب سے بڑے اعزا ز سے نواز چکا ہے۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی او آئی سی کے اجلاس میں بھارت کو بطور مبصر دعوت دی گئی تھی۔حالانکہ پاکستان نے احتجاج کیا تھا۔ وزارتی اجلاس کا بائیکاٹ بھی کیا لیکن پھر بھی بھارت کی دعوت منسوخ نہیں کی گئی تھی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے بطور مبصر او آئی سی کے وزارتی اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں او آئی سی نے کشمیر کے حق میں قرارد ادیں بھی منظور کر لیں۔ جس کو تب بہت بڑی سفارتی فتح قرار دیا گیا تھا۔حالانکہ کامیاب سفارتکاری تو متحدہ عرب امارات کی تھی کہ انھوں نے بیک وقت بھارت اور پاکستان دونوں کو خوش کر دیا۔میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے دورہ کو منسوخ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ انھیں متحدہ عرب امارات جانا چاہیے تھا۔ اور کشمیر کا مقدمہ لڑنا چاہیے تھا۔ سفارتکاری میں ناراض ہو کر گھر نہیں بیٹھتے۔ بلکہ ہر جگہ پہنچ کر اپنی بات کرتے ہیں۔ بند دروازے کھولتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ نہ دنیا ہمارے لیے بھارت سے تعلقات ختم کرے گی اور نہ ہمیں بھارت کے لیے دنیا سے تعلقات ختم کرنے ہیں۔ دونوں نے دنیا میں زندہ رہنا ہے۔حال ہی میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ عروج پر تھا تو متحدہ عرب امارات کے کراؤن پرنس شیخ محمد بن زائدالنہیان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا‘ انھوں نے پاکستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان متحد ہ عرب امارات گئے ۔ اسی طرح سعودی عرب کے محمد بن سلمان پاکستان بھی آئے اور بھارت بھی گئے ۔ انھوں نے پاکستان میں پاکستان سے دوستی کی بات کی اور بھارت میں اس سے دوستی کی بات کی۔ ہم کیوں یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب ہم دنیا میں اپنے مفاد کی بات کرتے ہیں تو دوسروں کو اپنے مفاد کی بات کرنے کی اجازت کیو ں نہیں دیتے۔کیا عربوں نے آپ سے گلہ کیا ہے کہ آپ ان کے ساتھ یمن میں لڑنے کیوں نہیں آئے۔ کیا عربوں نے آپ سے گلہ کیا ہے کہ آپ ہمارے کیسے دوست ہیں کہ جب سارے عرب ممالک نے قطر سے اعلان لاتعلقی کر دیا تھا تو پاکستان نے قطر سے اعلان تعلقی کیوں نہیں کیا۔ کیا عربوں نے گلہ کیا ہے کہ جب ہم ایران کے خلاف ہیں تو وزیر اعظم پاکستان دوستی کا دم بھرنے ایران کیوں جاتے ہیں۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم عرب سے ادھار اور بھارت نقد تیل لیتا ہے۔شاید سب کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے تین ارب ڈالر کی امداد تو یاد ہے لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں کہ UAE PAPپروگرام کے تحت پاکستان میں پولیو کے خاتمہ کے لیے گزشتہ نو سال ے متحد ہ عرب امارات کام کر ہا ہے۔ اس ضمن میں متحدہ عرب امارات نے اب تک کے پی فاٹامیں کئی ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ 2014میں متحدہ عرب امارات کے آنے کے بعد کے پی اور فاٹا میں یہ پراپیگنڈہ ختم ہوا کہ یہ ویکسین حرام ہے۔اسی لیے متحدہ عراب امارات کے آنے کے بعد کے پی اور فاٹا میں پولیس کے کیسز میں نوے فیصد کمی ہوئی ہے۔صرف متحدہ عرب امارات کے تعاون سے ان علاقوں میں 71ملین بچوں کو پولیو کے قطرہ پلائے گئے ہیں۔ اس سے قبل اس ویکسین کو حرام اور امریکا کی سازش کہا جاتا تھا۔ آج ان کو مودی کو اعزاز د ینے پر تنقید تو کر رہے ہیں لیکن پولیو کے خاتمہ میں مدد دینے پر شکر گزار نہیں ہیں۔ متحد ہ عرب امارات میں ہزاروں پاکستانی روزگار کما رہے ہیں۔ میرا سوشل میڈیا پر متحدہ عرب امارات سے جنگ کا مشورہ دینے والے دوستوں سے سوال ہے کہ ان ہزاروں پاکستانیوں کا کیا کریں جو متحدہ عرب امارات میں روزگار کے لیے موجود ہیں۔ ان سب کو واپس لینا ہے یا ان کو بھی دشمن ڈیکلئیر کر کے ان کی پاکستان کی شہریت ختم کر دینی ہے۔کیا ہمیں احساس ہے کہ جب دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تو متحدہ عرب امارات کو پاکستان کا ہوم گراؤنڈ ڈیکلیئر کیا گیا ہے۔ ہم دس سال سے وہاں گھر کے ماحول میںکرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اگر متحدہ عرب امارات بھی ہمیں جگہ نہ دیتے تو ہم دس سال کہاں کرکٹ کھیلتے۔پاکستان سپر لیگ کہاں شروع کرتے۔ وہاں موجود ہزاروں پاکستانیوں کی وجہ سے ہمیں وہاں گھر جیسا ماحول ملا ہے۔ لیکن آج ہم وہ سب بھی بھول گئے ہیں۔آج متحدہ عرب امارات کو بھارت کا دوست ہونے کا طعنہ دینے والے میرے پاکستانی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی متحدہ عرب امارات ہمارے ساتھ رہا ہے۔ شاید ہی کسی کو علم ہو کہUAE PAKISTAN ASSISTANCE PROGRAM کے تحت شمالی اور جنوبی وزیر ستان کو ملانے کے لیے پاک ایمرٹس فرینڈ شپ روڈ بھی متحدہ عرب امارات نے بنائی ہے۔ وزیر ستان میں تجارت کو موثر بنانے کے لیے شیخ خلیفہ بن زائد النہیان روڈ نے اہم کرردار ادا کیا ہے۔ اس سڑک کی وجہ سے کراچی اور کابل کے فاصلے میں 400کلومیٹر کی کمی ہوئی ہے۔کیا آپ کے خیال میں جب متحدہ عرب امارات وزیر ستان میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا تو بھارت خوش ہوگا۔ بھارت نے تو بہت مشکل سے اس علاقے میں شورش پیدا کی تھی اور متحد ہ عرب امارات اس علاقے کو ترقی دے کر بھارت کے عزائم کو ناکام بنا رہا تھا۔ سوات میں سیلاب سے ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے دریائے سوات پر دو پل تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ پل جہاں سوات کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا رہے ہیں، وہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی مدد کار ثابت ہو رہے ہیں۔ علاقے میں ترقی بھی نظر آرہی ہے۔متحدہ عرب ا مارات کے تعاون سے کے پی فاٹااور بلوچستان میں ساٹھ سے زائد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے ادارے شامل ہیں۔ وانا میں متحدہ عرب امارات کے تعاون سیے شاندار کیڈٹ کالج تعمیر کیا جارہاہے جہاں پانچ سو طا لبعلم زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح جنڈولہ اور پشاور میں بھی متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کیڈٹ کالج تعمیر کیے گئے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ وانا جیسے علاقے میں کیڈٹ کالج تعمیر کرنے سے بھارت متحدہ عرب امارات سے کتنا خوش ہو ا ہو گا۔یہ کیسا بھارت کا دوست ہے جو وزیرستان میں اسپتال بنا رہا ہے۔ سوات میں اسپتال بنا رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ جہاں کوئی ہماری مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے پاکستان کی قوم کو جذباتی ہو کر نہیں سوچنا۔ دنیا سے الگ ہونا کو کوئی دانشمندی نہیں۔ دوستوں کی ماضی کی خدمات کو اس طرح نظر انداز کر دینا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ دوستوں کو دشمن بنانے کی روش ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔