اسلام آباد: سینئر صحافی سلیم صافی نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرانسمیشن سے قبل پوری انتظامیہ، اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی میٹنگ ہوئی جس میں الیکشن ٹرانسمیشن اور دباﺅ کے حوالے سے پالیسی طے کی گئی۔ 25جولائی کی شام کو ہی الیکشن کے بعد گنتی کے عمل کے دوران پولنگ ایجنٹوں کونکال کر ان کی عدم موجودگی میں گنتی کیے جانے کی شکایات مل رہی تھیں اور فارم 45پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخطوں کے ساتھ نتائج دینے کی بجائے سادہ کاغذوں پر نتائج دئیے جارہے ہیں۔ مجھے وٹس ایپ پر ایم کیوایم کی طرف سے کراچی اور ایک اور دوست کے ذریعے ایبٹ آباد سے اسی طرح کے سادہ کاغذ پر پریزائڈنگ آفیسر کی مہر کے ساتھ نتائج بھی موصول ہوئے جسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ہمارے رپورٹر مختلف جگہوں سے اس قسم کی خبریں دے رہے تھے لیکن انہیں چلانے کی گنجائش یا اجازت نہیں تھی۔
’اگلے روز مجھے شیڈول کے مطابق دوبارہ ایک بجے سے رات دو بجے تک تجزیہ کرنے والے پینل میں بیٹھنا تھا لیکن گفتگو کا آغاز ہوتے ہی جب میں نے الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں سے متعلق ابتدائی گفتگو کی تفصیلات سامنے رکھیں تو چینل کو بند کرنے کی دھمکیاں شروع ہوئیں۔ چنانچہ مجھے ایک بار پھر پینل سے اٹھنا پڑا۔ ٹرانسمیشن چھوڑ کر میں اے این پی کے رہنما شاہی سید اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سے تعزیت کرنے چلا گیا۔ ان کے ہاں اتنی بڑی تبدیلی آئی تھی کہ مجھے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا کہ میں پی ایس پی اور اے این پی کے رہنماﺅں نہیں بلکہ پی ٹی ایم کے رہنماﺅں سے گفتگو کررہا ہوں‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’مجھے ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری، پاک سر زمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال اور اے این پی کے شاہی سید نے کراچی سے شکایت کی کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ٹیلی فون پر دیر سے متعلق یہی شکایت کردی جبکہ جے یو آئی کے حافظ حمداللہ نے کوئٹہ سے۔ پشاور سے ہمارے رپورٹر آفتاب نے پورے پشاور شہر سے اس طرح کی واردات کی خبر دی لیکن جب وہ نشر نہ ہوئی تو انہوں نے مجھے وٹس ایپ پر تفصیلات بھیجیں۔ ہمیں ٹیلی فون پر جو شکایات موصول ہوئی تھیں ، ان کا خلاصہ ٹی وی پر بیٹھ کر سنا دیا لیکن اس پر اتنا دباﺅ آیا کہ ہم جیسے لوگوں کو پینل سے اٹھنا پڑا۔ میں وہاں سے ہوٹل گیا اور ٹی وی پر تماشہ دیکھتا رہا۔ سب سے بڑا تماشہ یہ تھا کہ رات ساڑھے تین بجے تک الیکشن کمیشن کے پاس کوئی نتیجہ موصول نہیں ہوا تھا کیونکہ جو آرٹی ایس بنایا گیا تھا وہ یا تو جام ہوگیا تھا یا پھر جام کرایا گیا تھا‘۔
سلیم صافی کے مطابق ’اس وقت تک مصطفی کمال اور شاہی سید کو ان کے حلقے کا نتیجہ نہیں ملا تھا لیکن ہر کسی کو علم ہوگیا تھا کہ وہ ہار گئے ہیں۔ ٹیلی فون پر مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی خان سے بات ہوئی تو ان دونوں کی گفتگو کی تلخی سے یوں لگ رہا تھا کہ فون پر دوسری طرف منظور پشتین گفتگو کررہے ہوں۔ اگلے روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے بات ہوئی تو ان کو اس قدر دکھی پایا کہ جیسے ان کا سابق اتحادی،عمران نیازی نہیں جیتا بلکہ خاکم بدہن کسی نیازی نے ہتھیار ڈالے ہوں۔بہرحال انتخابات ہوئے۔ نئے طریقے سے اور بالکل نئے انداز میں ہوئے۔ الحمدللہ ہم سب ناچتے گاتے، نئے پاکستان میں داخل ہوئے لیکن مصیبت یہ ہے کہ نئے پاکستان میں چور دروازے سے اور بہت ہی پرانے طریقے سے داخل ہوگئے تاہم یہ نیا دور ہے ، نئے دور کے تقاضے بھی نئے ہیں جسے شاید ہم نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے اب نئے پاکستان کے مزے کو بدمزہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے آئیے سب مل کر کہتے ہیں کہ سب کو نیا پاکستان مبارک ہو۔ بالخصوص ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی پردے کے پیچھے رہ کر اور کبھی سامنے آکر اس کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔چنانچہ عمران خان نیازی کو بھی مبارک ہو اور ان کو لانے والے کو بھی بہت بہت مبارک ہو‘۔