اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکہ کی نئی حکومت میں پاکستانی اور بھارتی شہریوں کے بعد کشمیری نژاد امریکی خاتون سمیرا فاضلی کو بھی یکساں اہمیت حاصل ہوئی ہے جنھیں وائٹ ہاؤس میں ایک اہم عہدے پر تقرری نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام کے لیے ایک نئی امید پیدا کر دی ہے۔سمیرا فاضلی اُن کئی غیرملکی امریکیوں میں شامل ہیں جنہیں اس سال جنوری کے آغاز پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی انتظامیہ میں مختلف عہدوں پر تعینات کرنے کا اعلان کیا تھا۔سمیرا کو جوبائیڈن انتظامیہ میں قومی اقتصادی کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ میں اقتصادی امور کی سینئر مشیر رہ چکی ہیں۔ متنازع خطے میں پائی جانے والی سیاسی اور سیکیورٹی صورتِ حال کے پس منظر میں اکثر مقامی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں سمیرا فاضلی کی موجودگی جو بائیڈن انتظامیہ کے مسئلہ کشمیر اور اس سے جڑے دیگر امور کو بہتر طور پر سمجھنے اور کشمیری عوام کے نقطۂ نظر کو جاننے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق سمیرا کی جو بائیدن انتظامیہ میں اہم عہدے پر تقرری کی خبر کا جموں و کشمیر بالخصوص وادئ کشمیر میں خوب خیر مقدم ہوا تھا۔ اُن کی تقرری سے کشمیریوں کے ایک وسیع حلقے میں پیدا ہونے والی امید زمینی حقائق سے کہاں تک میل جول رکھتی ہے اس سوال کے جواب میں تجزیہ کار مختلف رائے رکھتے ہیں۔تاہم بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے اور یہ ان دونوں ملکوں کی داخلی سیاست سے جڑی بعض مجبوریوں کے پیشِ نظر امریکہ جیسے با اثر تیسرے ملک یا طاقت کی ثالثی کے بغیر ممکن نہیں۔
سمیرا فاضلی امریکی ریاست نیویارک کے شہر بفلو کے ایک قصبے فلیمز وائیل میں پیدا ہوئیں اور پھر وہاں سے اپنے خاوند اور تین بچوں سمیت جارجیا منتقل ہوئیں۔ سمیرا کے والدین ڈاکٹر محمد یوسف اور ڈاکٹر رفیقہ فاضلی 1970 میں سری نگر سے نقلِ مکانی کر کے امریکہ میں جا بسے تھے۔ سری نگر میں مقیم سمیرا کے ماموں رؤف فاضلی کے مطابق ڈاکٹر یوسف چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی سمیرا بھی ان ہی کی طرح ڈاکٹر بنے۔ اُن کے بقول سمیرا کو میڈیکل کالج میں داخلہ بھی مل گیا تھا جہاں وہ دو برس تک تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ لیکن سمیرا خاندان میں پائے جانے والے اس رجحان سے ہٹ کر قانون کی تعلیم کی طرف راغب ہوگئیں۔ سمیرا نے ییل لاء اسکول میں گریجویش کی اور بعد میں ہارورڈ کالج سے سوشل اسٹیڈیز میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ رؤف فاضلی نے بتایا کہ اُن کی بھانجی امریکہ میں پلنے بڑھنے کے باوجود ہمیشہ اپنے آبائی وطن سے جڑی رہیں اور جب بھی وہ کشمیر آتی ہیں تو اپنے رشتے داروں کے ساتھ ساتھ عام کشمیریوں سے گھل مل جاتی ہیں۔
اُن کے بقول سری نگر کے اسپتالوں میں جا کر سمیرا مریضوں سے اُن کا حال پوچھتیں اور ضرورت مندوں کی مقدور بھر مدد کرتی رہی ہیں۔فاضلی خاندان میں طب کا پیشہ اختیار کرنے کا رجحان ڈاکٹر محمد یوسف کے فرسٹ کزن ڈاکٹر علی جان فاضلی کے اس پیشے میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ ڈاکٹر علی جان کشمیر میں لقمان حکیم ثانی کے لقب سے مشہور ہیں۔ سری نگر کے سب سے بڑے اسپتال کا ایک وارڈ اور شہر کی ایک بڑی سڑک اُن کے نام سے منسوب ہے۔سمیرا نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیسے کیا؟
تعلیم مکمل کرنے کے بعد سمیرا نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز وییل لاء اسکول کے کمیونٹی اینڈ اکنامک ڈویلپمنٹ کلینک میں کلینیکل لیکچرر کی حیثیت سے کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس ادارے کی بین الاقوامی سطح پر شناخت کرانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کی ایک کمیونٹی ڈیولپمنٹ فنانشل انسٹیٹیوشن قائم کرنے میں بھی خوب مدد کی۔ بعدازاں سمیرا شورویر بینک میں ایک فیلو کے طور پر کام کرنے لگیں۔ اس بینک کا مقصد ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور بیرونِ ملک اقتصادی مساوات کے امور پر توجہ دینا تھا۔
کشمیریوں کی خوشی کی وجہ کیا ہے؟
سیاسی تجزیہ کار اور کالم نویس ڈاکٹر جاوید اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سمیرا کی بائیڈن انتظامیہ میں موجودگی سے کشمیری مسائل میں کمی کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہ میں بھی۔
ان کے بقول سمیرا کو بائیڈن کے قریبی حلقے میں جتنی بھی جگہ مل جائے اُس میں رہ کر وہ صرف ایجنڈا آگے لے جانے کی کوشش کریں گی جو اُن کے خیالات اور جذبات سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن بالآخر وہی ہوگا جسے امریکی انتطامیہ صحیح سمجھ کر حاصل کرنا چاہتی ہے۔
جاوید اقبال نے تاریخی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب صدر رچرڈ نکسن نے ہینری کسنجر کو جنوری 1949 میں قومی سلامتی کا مشیر بنایا تو واشنگٹن ڈی سی میں تعینات بعض عرب سفراء ان کے یہودی ہونے کے باعث اُن سے ملنے سے کترا رہے تھے۔ اُن کی اس ہچکچاہٹ کو دور کرنے کے لیے صدر نکسن نے اُن پر واضح کر دیا تھا کہ کسنجر پہلے امریکہ اور بعد میں کسی اور معاملے کے بارے میں سوچیں گے۔
‘بالآخر وہی ہوگا جو امریکہ چاہتا ہے’
تجزیہ کار جاوید اقبال کہتے ہیں اگر سمیرا فاضلی کو اپنی بات کو دوسروں کے سامنے رکھنے کے لیے موقع ملتا ہے تو وہ ایسا ضرور کریں گی۔ لیکن بالآخر وہی ہوگا جو جو بائیڈن انتطامیہ کرنا چاہے گی اور جو اس کی برصغیر اںڈو پاک کے لیے بالخصوص مسئلہ کشمیر کے بارے میں تیار کی گئی پالیسی ہوگی۔
لیکن مصنف اور جموں و کشمیر محکمۂ تعلیم میں علمِ نفسیات کی سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر نگہت حفیظ کا کہنا ہے کہ سمیرا فاضلی کی وائٹ ہاؤس میں تقرری کشمیریوں کے لیے نہ صرف خوش آئند بات ہے بلکہ ایک اچھا شگون ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ “ہمیں بہت زیادہ پُر امید ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ کوئی بھی ایسا ایک قدم کسی ملک کی بنیادی پالیسیوں کا محرک نہیں بنتا۔” یونیورسٹی آف کشمیر کی طالبہ صالحہ شاہ نے کم و بیش ان ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سمیرا فاضلی کی تقرری کا اعلان ہوا تو کشمیر میں لوگوں نے خوشی منائی اور بالخصوص طلبا اور نوجوان طبقہ پُرجوش نظر آیا۔ لیکن ان کے بقول، قوموں اور ملکوں بالخصوص امریکہ جیسے بااثر ملک کی بڑے، اہم اور حساس عالمی معاملات میں پالیسیاں اتنی جلدی اور اتنی آسانی کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتیں۔
صالحہ شاہ کہتی ہیں “ہمیں حقیقت پسند بننا ہوگا۔ ہمیں بس اس بات پر خوشی بلکہ فخر ہے کہ کوئی ہم میں سے ہے جسے اتنے اہم اور ذمہ دار منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔ سمیرا فاضلی بھلے ہی امریکی شہری ہوں وہ کشمیریوں کے وصف اور فطری استعداد کی ایک علامت کے طور پر ابھری ہیں۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے۔”
کشمیری خواتین کی اکثریت اب بھی ایک قدامت پسند سماج کا حصہ ہونے کے باعث دب کر رہ گئی ہے۔ کیا سمیرا کی وائٹ ہاؤس تک رسائی اس صورتِ حال کے بدلنے کا پیش خیمہ ثابت ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں نگہت حفیظ کہتی ہیں کشمیری خواتین بھی ستاروں پر کمند ڈال سکتی ہیں اور سمیرا فاضلی اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ایک خاتون کی حیثیت سے سمیرا کشمیری خواتین کے لیے رہنما کے طور پر سامنے آئی ہیں۔