لاہور (ویب ڈیسک) وزير برائے منصوبہ بندی خسرو بختيار نے میڈیا سے بات چيت کرتے ہوئے بتايا تھا کہ حکومت کوئی ايسا ماڈل تيار کرنے کی کوشش ميں ہے، جس کی مدد سے پورے کا پورا خطرہ صرف پاکستان ہی کو مول نہ لينا پڑے۔ خسر و بختيار 8.2 بلين ڈالر ماليت کے اس منصوبےکی
بارے ميں بات کر رہے تھے، جس کے تحت کراچی سے پشاور تک ريلوے ٹريک بچھايا جانا ہے۔ يہ چين کے ’بيلٹ اينڈ روڈ انيشی ايٹِو‘ (BRI) کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ تاہم اخراجات اور قرض کے بوجھ تلے دب جانے کے خوف سے پاکستان نئی شاہراہ ريشم کے ايسے متعدد منصوبوں کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہے۔خطے ميں چينی سرمايہ کاری کے حوالے سے تحفظات بڑھتے جا رہے ہيں۔ پاکستان ہی نہيں بلکہ سری لنکا، ملائيشيا اور مالديپ ميں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتيں بھی سابقہ حکومتوں کی جانب سے طے کردہ معاہدوں کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہيں۔ پاکستان ميں وزير اعظم عمران خان کی حکومت ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے ليے سرگرم ہے اور يہی وجہ ہے کہ نئی شاہراہ ريشم کے متعدد منصوبوں پر ان دنوں سوالات اٹھائے جا رہے ہيں۔ پاکستانی اہلکار BRI کے تحت طے کردہ تمام منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہتے ہيں۔ اسلام آباد حکومت کا موقف ہے کہ معاہدے درست انداز سے طے نہيں کيے گئے اور يوں وہ زيادہ تر چين کے مفاد ميں ہيں۔ پاکستان کے تين سينئر اہلکاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتايا کہ چين صرف ان منصوبوں پر دوبارہ بات چيت کے ليے تيار ہے، جن پر اب تک کام شروع نہيں ہوا۔
اس بارے ميں جب نيوز ايجنسی روئٹرز کی جانب سے چينی وزارت خارجہ کو چند سوالات بھيجے گئے، تو جواب ميں کہا گيا کہ دونوں فريق ’بيلٹ اينڈ روڈ انيشی ايٹِو‘ کے منصوبوں کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے سلسلے ميں پر عزم ہيں۔ اسلام آباد حکومت نے بھی يہ واضح کيا ہے کہ وہ چينی سرمايہ کاری سے شروع کيے جانے والے منصوبوں کی تکميل کے سلسلے ميں پر عزم ہے تاہم ان پر اٹھنے والے اخراجات جيسے امور پر نظر ثانی کی طلب گار ہے۔ بیجنگ نے پاکستان چين اقتصادی راہداری يا سی پيک کی منصوبے کے تحت ساٹھ بلين ڈالر کی سرمايہ کاری کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کے کئی علاقوں ميں بنيادی ڈھانچوں کو بہت بہتر بنایا جا سکے گا اور یہ بات کئی علاقوں میں مقامی آباديوں کے ليے روزگار کے بہتر مواقع کا باعث بنے گی۔پاکستان میں چينی سفير ياؤ جنگ نے روئٹرز کو بتايا کہ بیجنگ حکومت اسلام آباد کی جانب سے پيش کردہ تجاويز پر نظر ثانی کے ليے تيار ہے اور اس ضمن ميں ايک روڈ ميپ تيار کيے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے يہ يقين دہانی بھی کرائی کہ صرف ان منصوبوں پر ہی کام ہو گا، جن ميں پاکستان کی رضامندی شامل ہو گی۔