لاہور (ویب ڈیسک) خریداری کے لیے بازار میں ‘میں ایک دکان پر کھڑا تھا ‘ اچانک میری نظر ایک ایسے پٹھان پر پڑی جس کے کاندھے پر چارپائیاں بننے والا وان تھا ‘ گھٹنوںکے شدید درد میں مبتلا لنگڑا کرچل رہاتھا‘کبھی چلتا تو کبھی رک کر پیچھے دیکھ لیتا ۔میں اس وقت خود پر قابو نہ رکھ سکا نامور کالم نگار محمد اسلم لودھی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں نے اس کی آنکھوں میں آنسو ٹپکتے دیکھے ۔مجھے اپنا کام بھول گیا میں اس کے پاس جا پہنچا اور پوچھا کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ؟ وہ شاید کسی کے کندھے ہی کا متلاشی تھا اس نے زار و قطار رونا شروع کردیا ‘ اسکی کیفیت دیکھ کر میرا دل اور پسیج گیا ‘ میں اس کی ہر ممکن مدد کرنے کاارادہ کرچکا تھا ‘ میرے اصرار پر اس نے آنسو صاف کیے اور بولا صاحب میں خیبر پختون خواہ کے علاقے لکی مروت کا رہنے والا ہوں ۔میرے پانچ بچے ہیں ‘ سنا تھا لاہورمیں روزگار مل جاتا ہے میں کسی سے ادھار لے کر یہاں پہنچا ہوں۔ میرے گائوں کے چند لوگ پہلے سے یہاں موجود تھے انہوںنے مجھے اپنے ساتھ ہی رکھ لیا ‘ مجھے اور کوئی کام کرنانہیں آتا میںصرف چارپائیاں بن سکتا ہوں۔ پیٹ کی خاطر صبح سے شام تک گلیوں میںدھکے کھاتا پھر رہاہوں کوئی کام نہیں ملا ‘ صبح سے بھوکا ہوں ‘ گھٹنوں میں درد کی وجہ سے چلا بھی نہیں جارہا۔ شام ہونے کو ہے ‘ رب سے التجا کررہا تھا کہ میری مدد کے لیے کوئی فرشتہ بھیج ‘پھر سوچا کہ پردیس میں کون میری مدد کرے گا ۔میں نے اس کی دکھ بھری کہانی سنی اور 100روپے کا نوٹ نکال کر اسے دے دیاوہ نوٹ کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی انوکھی چیز ہو ۔ میںنے پوچھا تم چارپائیاں بننے کا کام کرنے لاہور کیوں آئے ہو‘ یہ کام تم اپنے علاقے میں بھی کرسکتے تھے ‘ اس نے کہا صاحب ‘ ہمارے علاقے میں بہت غربت ہے ‘ چارپائیوں پر کوئی نہیں سوتا ‘ گھاس پھونس بچھا کر سوتے ہیں اور کچھ مل جائے تو کھالیتے نہ ملے تو بھوک ہی رات بسر کرلیتے ہیں ۔خیبر پختونخوا کے آدھے سے زیادہ لوگ لاہور اور کراچی رزق کمانے آئے ہوئے ہیں ‘ کوئی لاہور میں حکیمی شربت کی ریڑھی لگاتا ہے تو کوئی موچی کا کام کرکے رزق کماتا ‘ کوئی مزدوری کرتا ہے تو چوکیدار ی کرتا ہے کوئی رکشا چلاتا‘ کوئی کندھے پر قالین رکھ کر صبح سے شام سے گلیوں میں بیچنے کیلئے دھکے کھاتا پھرتا ہے ‘پیٹ بھرنے کے بعد جو بچتا ہے وہ بیوی بچوں کو دے آتے ہیں ۔یہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ کچھ پٹھان ایسے بھی ہیں جن کا شمار کھاتے پیتے افراد میں ہوتا ہے بطور خاص فینسی کپڑوں کے کاربار پر پٹھانوں کاہی ہولڈ ہے۔اوریگا اور ڈیفنس موڑکی پوری مارکیٹ پر انہی کا قبضہ ہے۔پٹھان ہمارے غیور بھائی ہیں ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔ میرے دوست عبدالغفور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پٹھان ہمارے بھائی ضرور ہیں لیکن کسی ایک سے جھگڑا ہوجائے تو پورے لاہور کے پٹھان چند منٹوں اکٹھے ہوکر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ اس کی حقیقی تصویر ہے ۔کیپٹن مبین جس خودکش دھماکے میں شہید ہوئے تھے پولیس نے جب خود کش حملہ کرنیوالوں کے سہولت کار پکڑے تو وزیر اعلی کے پی کے پرویزخٹک کا رویہ انتہائی تکلیف دہ تھا حتی کہ سراج الحق بھی سہولت کارپٹھان کے حق میں نہ صرف کھڑے ہوئے بلکہ منصورہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی تکلیف باتیں کرتے ہوئے پنجاب حکومت اور انتظامیہ کو خوب لتاڑا ۔ وہ زہر آلود بیانات اور تقریریں آج بھی اخبارات کے صفحات میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔میں عمران خان سے درخواست کرناچاہتا ہوںکہ خیبر پختون خوا کے لوگ خالی بدترین غربت اور جہالت کے باوجود آپ کے جانثارووٹر ہیں۔ جنہوں نے 2013ء اور 2018ء کے الیکشن میںبھی عمران خان کو ووٹ دے کر اپنی نمائندگی کا حق دیا ۔ان کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کو ان کے گھر کے نزدیک باعزت روزگار فراہم کیاجائے کیونکہ اگر اپنے ضلع میں باعزت روزگار میسر آجائے تو کس کا جی چاہتا ہے کہ وہ لاہور اورکراچی میں دھکے کھاتا پھر ے۔یہ بات بھی قرین حقیقت ہے کہ لاہور میں ہر تیسرا چوتھا شخص پٹھان نظر آتا ہے کئی علاقوںمیں پنجابی اور پٹھان کا تناسب ففٹی ففٹی ہوچکا ہے ۔حالانکہ پنجاب کے رہنے والوں کا دل ہر قسم کے تعصب سے پاک ہے اس لیے ہر مقامی شخص انکوعزت کی نگاہ سے دیکھتاہے ۔لنڈا بازار تو ویسے ہی ختم ہوچکا نولکھا بازار سمیت کتنی ہی مارکیٹیںپٹھانوں کے قبضے میں جاچکی ہیں ۔ جو لاہور میں سیٹ ہوجاتے ہیں وہ سہولت کار بن کر اپنے گائوں کے لاتعداد پٹھانوں کو لاہور لے آتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں لاہور ان کیلئے دوبئی بن چکا ہے۔ لاہور شہر پر انسانی آبادی کا بوجھ حد سے تک بڑھتا جارہا ہے، آبادی کے دبائو کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پنجاب سمیت خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع کے چھوٹے بڑے شہروں میں صنعتی زون قائم کئے جائیں۔ ہر پاکستانی کو اس کے گھر کے قریب روزگار فراہم کیاجائے تاکہ لاہور سمیت دیگر بڑے شہروں میں نقل مکانی کاسلسلہ روکا جاسکے ۔