لاہور (ویب ڈیسک) بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کی تبدیلی نیا ”مسئلہ‘‘ سہی، لیکن کابینہ کے اجلاس میں جہانگیر ترین کی شرکت تو تازہ معاملہ نہیں تھا، جس پر جناب شاہ محمود قریشی نے اپنے ردِ عمل کا اظہار اب کیا ہے (اور یوں سرِ عام کیا ہے) کراچی میں مقیم ہمارے دوست نامور کالم نگار رؤف طاہر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔نصیر احمد سلیمی سمیت بعض دانشوروں کی اپنی ”سازش تھیوری‘‘ ہے، جس کے مطابق اس وقت اس بحث مباحثے کا مقصد، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمر توڑ اضافے کی طرف سے توجہ ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر ”تنازعہ‘‘ کا سبب وزیر اعظم عمران خان کا اعلان ہے جو انہوں نے حالیہ دورۂ گھوٹکی کے دوران، اپنے اتحادیوں کے ”مطالبے‘‘ کو منظور کرتے ہوئے کیا۔ بعض احباب وزیر اعظم کے دورہ گھوٹکی کو بلاول بھٹو زرداری کے کاروانِ بھٹو کا رد عمل بھی قرار دیتے ہیں، جس میں وزیر اعظم نے بلاول کے ٹرین مارچ کو ”چوری بچانے‘‘ کا حربہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ”جو مرضی کر لیں لوٹی ہوئی رقم واپس لئے بغیر نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ انہوں نے اسلام آباد میں دھرنے کے لیے اپوزیشن کو اپنا کنٹینر فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی، جس سے اس کے ”سٹیمنا‘‘ کا پتہ بھی چل جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان گھوٹکی میں یہاں کے مہر برادران کے مہمان تھے۔ مہر قبیلہ میزبانی کی اپنی روایات رکھتا ہے۔ یاد آیا،1987ء میں قاضی حسین احمد نے امیر جماعت اسلامی منتخب ہونے کے بعد، ملک گیر کاروانِ دعوت و محبت کا اہتمام کیا تھا۔ آغاز پشاور سے ہوا، پنجاب کے بعد کارواں نے سندھ کا رخ کیا۔ تب مہر قبیلے کے سردار، غلام محمد خان زندہ تھے، ان کا اصرار تھا، کاروان دعوت و محبت ان کا کھانا کھائے بغیر آگے نہیں جا سکتا۔ (سردار غلام محمد خان مہر، نواب زادہ نصر اللہ خان کی طرح ترکی ٹوپی پہنتے)۔ وہ ایوب خان کے دور میں بھی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔فیلڈ مارشل شکار پر آتے، تو انہی کے مہمان ہوتے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے قومی اسمبلی کا صرف ایک الیکشن (1970ء والا) ہارا۔ تب ان کا مقابلہ بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی سے تھا۔ بھٹو صاحب برسر اقتدار آئے تو مہر سردار نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی جس کے لیے بھٹو صاحب، غلام مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ گھوٹکی آئے تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں سینیٹ کا رکن بھی بنا دیا۔ مہر سردار کے لیے یہ دلوں کا نہیں، مجبوری کا سودا تھا؛ چنانچہ ادھر بھٹو صاحب ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوئے، ادھر سردار نے پیپلز پارٹی کو الوداع کہہ دیا۔ بعد میں وہ جونیجو صاحب کی کابینہ کے رکن بھی بنے۔ پنوں عاقل چھائونی بھی گھوٹکی ہی میں ہے، ضیاء الحق دور میں سندھی قوم پرستوں کے علاوہ پیپلز پارٹی نے بھی جس کی تعمیر کی شدید مخالفت کی تھی جبکہ سردار غلام محمد مہر اس کے پُر زور حامی تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق (اور ان کے ”جانشینوں‘‘) سے مہر قبیلے کے تعلق کو مضبوط تر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وطن کی خدمت (اور حفاظت) کے اعتراف میں الاٹ کی گئی زمینوں کا بڑا حصہ بھی گھوٹکی میں ہے۔ پنجابی اور اردو سپیکنگ آباد کار بھی یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔ ابو ظہبی کے شیخ بھی سال میں دو بار شکارکھیلنے آتے ہیں (اور مہر سرداروں کی میزبانی کا لطف اٹھاتے ہیں)2008ء کے الیکشن کے بعد ملک میں نئی سیاست تھی۔ مشرف کا جانا ٹھہر گیا تھا، صبح گیا کہ شام گیا۔ مشرف دور میں پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے پیپلز پارٹی کو اس کے ”آبائی‘‘ صوبے میں بھی دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2002ء کے عام انتخابات کے بعد، 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی سندھ میں قاف لیگ نے پیپلز پارٹی کے کشتوں کے پشتے لگا دیئے تھے۔ اب 2008ء کے انتخابات کے بعد نئی سیاست تھی اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کو نیا سیاسی سہارا درکار تھا۔ سردار غلام محمد مہر اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ ان کے صاحبزادے ابھی لڑکپن میں تھے؛ چنانچہ دستار مرحوم سردار کے بھتیجے علی گوہر خان مہر کے سر پر رکھ دی گئی۔ عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر سردار علی محمد خان مہر ان کے چھوٹے بھائی ہیں ( وہ 2002 کے عام انتخابات کے بعد کچھ عرصہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی رہے) 2008ء کے الیکشن کے بعد، سردار علی گوہر خان مہر کی دعوت پر نواز شریف گھوٹکی آئے۔ یہاں سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم سمیت قاف لیگ کے سبھی وابستگان موجود تھے۔ ان میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی تھے اور بلدیاتی اداروں کے سربراہان بھی (اور وہ بھی جو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ہار گئے تھے) یہ سب نواز شریف کی قیادت پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے، مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کرنا چاہتے تھے، میاں صاحب نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ابھی رک جائیں۔ وہ شاید آصف زرداری کی دل شکنی نہیں چاہتے تھے کہ معاہدہ بھوربن سے شروع ہونے والا رومانس ابھی نیا نیا تھا)گھوٹکی میں جلسۂ عام کے بعد، وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں‘ ان کے ”اتحادیوں‘‘ نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا ”مطالبہ‘‘ کیا، جسے وزیر اعظم نے وہیں اور اسی وقت (There and Then) منظور کرنے کا اعلان کر دیا (وزیر اعظم کے الفاظ تھے، ”چینج ہو گیا‘‘) لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہ تھا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت، ایک باقاعدہ ادارہ ہے، اس کے نام کی تبدیلی، قانون میں ترمیم کئے بغیر ممکن نہیں… سینیٹ میں تو پی ٹی آئی (اور اس کے اتحادی) ویسے ہی اقلیت میں ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی، یہ کام اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اس پر پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن جماعتوں کا مخالفانہ رد عمل تو فطری تھا، خود پی ٹی آئی کے وائس چیئر مین، جو قومی اسمبلی میں بھی اپنے لیڈر کے قائمقام ہوتے ہیں، جناب شاہ محمود قریشی کی مخالفت البتہ حیرت کی بات تھی۔ ملتان میں اخبار نویسوں سے گفتگو میں‘ انہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے قانونی پوزیشن کی وضاحت کے ساتھ اپنی” ذاتی رائے‘‘ کے اظہار میں بھی تامل سے کام نہ لیا۔ ان کا کہنا تھا، وہ ذاتی طور پر نام کی تبدیلی کے مخالف ہیں اور پارٹی اجلاس میں بھی، یہ معاملہ زیر بحث آئے گا تو اسی رائے کا اظہار کریں گے۔ جناب شاہ محمود قریشی اپنی اصولی رائے کا اظہار کر چکے تھے۔ مزید حیرت کی بات، اگلے روز کی پریس کانفرنس میں اس مسئلے پر ان کا مزید ا ظہار خیال تھا۔ اب ان کے لہجے میں تلخی بھی در آئی تھی۔ ان کے خیال میں یہ ایک ”نان ایشو‘‘ کو ”ایشو‘‘ بنانا تھا‘ جسے ”سیاسی حماقت‘‘ قرار دینے میں بھی انہیں کوئی عار نہ تھی۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں جہانگیر ترین کی شرکت کو پی ٹی آئی کا دہرا معیار قرار دیا کہ جہانگیر ترین بھی ، نواز شریف کی طرح سپریم کورٹ سے آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نا اہل قرار پائے ہیں۔ ملتان کے مخدوم نے یہ یاددہانی بھی ضروری سمجھی کہ وہ 35 سال سے سیاسی کارکن ہیں؛ چنانچہ سیاست کی نبض کو خوب سمجھتے ہیںکہ اس دوران وہ گھاس نہیں کاٹتے رہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جہانگیر ترین خود تو زور زبردستی سے دروازہ کھول کر کابینہ کے اجلاس میں نہیں آ جاتے۔ ظاہر ہے، وہ جناب وزیر اعظم کی اجازت (بلکہ دعوت) پر ہی آتے ہیں، تو ملتان کے مخدوم کو اپنے اصولی مؤقف کا اظہار خود وزیر اعظم کے سامنے کرنا چاہیے تھا۔مخدوم صاحب کے بارے میں ایک عرصے سے ان کے بعض حاسدین اور ناقدین کی را ئے ہے کہ وہ کسی مناسب موقع کے انتظار میں ہیں، جب خود کو عمران خان کے ”متبادل ‘‘ کے طور پر پیش کر سکیں، تو کیا مخدوم صاحب کے خیال میں وہ مناسب موقع آ گیا ہے؟