لاہور (ویب ڈیسک ) میاں نواز شریف کی اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ ضمانت پر ہونے والی رہائی اگر چہ عارضی ہے لیکن یہ عارضی رہائی بھی تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔اس بار قومی انتخابات سے قبل ہی ن لیگ کے قائدین کو نیب زدہ کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا تھا
معروف صحافی شاہد نذیر لکھتےہیں کہ جس کے نتیجہ میں ن لیگ سیاسی انتشار کا شکار ہوئی اور وہ کماحقہ الیکشن میں برتری ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی تھی ۔اسکی بنیادی وجہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کا سزا یافتہ ہونے سے زیادہ منظر سے غائب ہونا تھا ،پارٹی کی قیادت پر براہ راست وہ اثر قائم نہ رکھ سکے اور ان کی عوامی رابطہ مہمات اور سیاسی انتخابی معرکہ آرائی کا ڈھانچہ پورے طور پر کام نہیں کرسکا تھا ۔اب وہ چاہے کچھ عرصہ کے لئے ہی جیل سے باہر کیوں نہ نکلے ہوں ، اکتوبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں وہ میدان مار لیتے ہیں تو قومی اور صوبائی حکومتوں میں ایک بار تو وہ ہلچل پیدا کرکے دکھا دیں گے ۔ن لیگ کے قائدین کی ضمانت پر رہائی کا بھی کریڈٹ اب نیب کے پراسیکیوٹرز کو دیا جانا چاہئے کہ جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بار بار استفسار اور ہدایات کے باوجود بار ثبوت فراہم نہیں کیا اور اس نالائقی کے صلے میں عدالت کو نیب کی درخواست معطل کرکے میاں نواز شریف ،مریم نوازز شریف اور کیپٹن صفدر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دینا پڑا ہے ۔اگرچہ نیب کی جانب سے سزاوں کا فیصلہ مسترد نہیں کیا گیا اور کارکن و رہنما ضمانت پر ملنے والی رہائی پر عارضی خوشیوں کا بغل بجارہے ہیں تاہم ن لیگ کی یہ جیت بھی کارکنوں کے مورال کو اپ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی ۔اس عارضی رہائی کا ابھی یہی فائدہ نظر آرہا ہے کہ وہ اڈیالہ جیل میں نہیں رہیں گے مگر نیب میں مزید ابھی کیسز میں میاں نواز شریف مطلوب ہیںجن کی روزانہ کی بنیاد پرشنوائی ہورہی ہے اور انہیں پیشیاں بھگتنا ہوں گی۔ان دو کیسز کے فیصلے بھی اگر میاں نواز شریف کے خلاف آتے ہیں تو ان کی اڈیالہ میں واپسی کا دور پھر شروع ہوسکتا ہے جبکہ ایون فیلڈ کے جس کیس میں وہ ضمانت پر باہر آئے ہیں ،نیب اسکی ضمانت کو معطل کرنے پر اپیل میں جاتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ ایون فیلڈ کیس کی ضمانت خارج ہونے پر تینوں ایک بار پھر جیل چلے جائیں لیکن اس کا انحصار اب میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے ’’رویہ ‘‘پر ہے ۔اور یہ رویہ صلح جویانہ ہوگا یا جنگویانہ ؟کیا وہ حسب معمول ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی سیاست کے درپردہ اپنے ٹارگٹ پر فائر کرتے رہیں گے اور ’’باز‘‘ نہیں آئیں گے تو انہیں پھر جیلوں میں ڈالا جاسکتا ہے ،اسکے لئے کسی کو جلدی نہیں ہوگی ۔میاں نواز شریف کے فولادی اعصاب کو شل کرنے تک یہ چومکھی جاری رکھی جائے گی ۔میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کیپٹن صفدر کی عارضی رہائی کے بعد مسلم لیگ ن اب حکومت کے خلاف کون کون سے اقدامات اٹھانے کے قابل ہوجائے گی کہ جس سے کراچی سے پشاور تک مسلم لیگ کو پھر سے یکجا کرکے اسکا مورال بلند کیا جاسکے گا۔بظاہر تو لگ رہا ہے کہ میاں نواز شریف یا مریم نواز شریف سخت زبان بولنے سے پہلے بہت سی باتوں کا جائزہ لیں گے کیونکہ اب انہیں ہاری ہوئی سیاسی بازی جیتنے میں وقت درکار ہوگا جس میں وہ اپنی قوت ضائع نہیں کرنا چاہیں گے ،ویسے بھی انہوں نے جو سیاسی نقصان اٹھانا تھا اٹھا چکے ہیں،شب اقتدار کا نیا سورج انصاف کے حق میں طلوع ہوچکا ہے ،ن لیگ کو اپنے سورج کے طلوع کرنے میں اب انتظار کرنا ہوگا اور یہی ن لیگ کے وسیع تر مفاد میں بھی بہتر ہے ۔میاں نواز شریف نے بیٹی اور داماد کے ساتھ تقریباً اڑھائی ماہ قید کاٹنے کے بعد یقینی طور پر سیاسی سودوزیاں بارے سوچا ہوگا ،لندن سے واپسی پر ان کا ائیر پورٹ پر کیسے استقبال ہوا،پھر اڈیالہ جیل میں قید کے دوران اپنی جماعت میں پھیلتی پھوٹ اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم کی سیاست کا مطالعہ کرکے انہوں نے جیل میں جوتپسیا کی ہے ،اس کی رو سے وہ آنے والے دنوں میں بہتر فیصلے کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے،ابھی تو وہ اپنی شریک حیات کلثوم نواز کے رحلت کر جانے کے سوگ میں ہیں اور اپنی سیاسی سرگرمیاں کرنے سے گریزاں بھی ہوں گے لیکن زیادہ دیر تک وہ خاموش بھی نہیں رہیں گے کیونکہ ابھی قومی اسمبلی کی گیارہ اور چھبیس صوبائی نشستوں پر چودہ اکتوبر کو ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں۔گویا اگلے چوبیس دنوں کے دوران وہ جیل سے باہر رہتے ہوئے ضمنی انتخابات میں میدان مارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت والوں اور پنجاب میں ن لیگ کا مینڈیٹ چھین کر حکومت بنانے والوں کے خواب چکنا چور بھی ہوسکتے ہیں۔میاں نواز شریف اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنا جانتے ہیں ،وہ میاں شہباز شریف سے نالاں اتحادیوں کو اگر متحدہ اپوزیشن بنوانے میں کامیاب ہوگئے تو ایوانوں میں تبدیلی کا نعرہ لگ سکتا ہے ۔