counter easy hit

نامور صحافی نے دلچسپ پیرائے میں کام کی بات کہہ ڈالی

The famous journalist said interesting work in Paris

لاہور (ویب ڈیسک) عادت حسن منٹو نے اپنی کتاب ”اوپر، نیچے، درمیان‘‘ میں کئی افسانوں کے علاوہ چچا سام (امریکہ) کے نام چھ سات خطوط بھی تحریر کیے‘ جو خاصے کی چیز ہیں۔ آج قریب چھ سات عشرے گزرنے کے باوجود ان خطوط میں ایسی تازگی ہے کہ لگتا ہے کہ کل ہی لکھے گئے ہیں۔ نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں وہ تیسرے خط میں لکھتے ہیں ”امریکی کوٹ بہت خوب ہیں‘ لنڈا بازار ان کے بغیر بالکل لنڈا تھا، مگر آپ پتلونیں کیوں نہیں بھیجتے؟ کیا آپ پتلونیں نہیں اتارتے؟ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان روانہ کر دیتے ہوں۔ آپ بڑے کائیاں ہیں ضرور کوئی بات ہے ادھر کوٹ بھیجتے ہیں، اُدھر پتلونیں۔ جب لڑائی ہو گی تو آپ کے کوٹ اور آپ ہی کی پتلونیں، آپ ہی کے بھیجے ہوئے ہتھیاروں سے لڑیں گی‘‘۔ اس معاہدے میں بھی وہی ہوا۔ آئی ایم ایف کی اتاری ہوئی پتلونیں اور پہنے ہوئے کوٹ آمنے سامنے بیٹھے ایک دوسرے سے مذاکرات اور معاہدہ کر رہے تھے۔ اس معاہدے کا فوری مثبت اثر تو یہ ہوا ہے کہ ڈالر ایک سو پچاس روپے کی ایسی بلندی کو چھونے لگا ہے‘ جس کا کبھی کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ظاہر ہے روپے کو جو تاریخی جوتے پڑ رہے ہیں وہ مسمی اسحاق ڈار مفرور کی وجہ سے ہی پڑ رہے ہوں گے کیونکہ سارا کیا دھرا اسی کا ہے۔ رہ گئے موجودہ حکمران، تو انہوں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تو پھر ڈالر کی لوٹ مار کا ملبہ موجودہ حکومت پر کس طرح ڈالا جا سکتا ہے؟ حالانکہ گزشتہ دنوں ہی عمران خان نے کہا تھا کہ ڈالر کا ریٹ مزید نہیں بڑھے گا۔ اور کیا کیا جائے؟ ڈالر ایک نہایت ہی گستاخ کرنسی ہے اور بھلا گستاخ کیوں نہ ہو؟ اس کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے ہے، امریکی بھلا ہم سے کہاں قابو آتے ہیں جو ان کی کرنسی آئے گی؟ ویسے بھی زمانے کی ساری ہوا ہی الٹی چل رہی ہے۔ حکومت جو بھی دعویٰ کرتی ہے نتیجہ اس کے بالکل ہی الٹ نکل رہا ہے۔چوہدری مجھ سے کہنے لگا: یہ موجودہ حکومت کئی ماہ سے صرف اس چھ ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے ترلوں پر اتری ہوئی تھی جو اسے یکمشت نہیں بلکہ تین سالہ اقساط پر ملیں گے۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ہر ماہ تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لیے اتنی رقم درکار ہے‘ جو آئی ایم ایف ہمیں پورے ایک سال میں دے گا۔ باقی گیارہ ماہ کیا بنے گا؟ زرمبادلہ کے ذخائر بھی سنا ہے دس ارب سے کم رہ گئے ہیں۔ آگے کیا ہوگا؟ چلیں پہلے حکمران تو کرپٹ تھے۔ ہر روز بارہ ارب کرپشن کی نذر ہو رہے تھے۔ اس بیانیے پر عمران خان نے بڑی ہمدردیاں سمیٹیں اور مقبولیت بھی حاصل کی۔ اب گزشتہ نو ماہ میں وہ اس بارہ ارب روپے روزانہ والی کرپشن کو کیوں نہیں روک سکے؟ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی تو کرپٹ تھی، چور تھی، بے ایمان تھی، کمیشن ایجنٹ تھی اور منی لانڈرنگ میں مصروف تھی‘ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟اب یہ ایماندار پارٹی بارہ ارب روزانہ کی کرپشن کیوں نہیں روک رہی؟ اگر یہ لوگ صرف یہ بارہ ارب روزانہ والی کرپشن روک لیتے تو نو ماہ کے دو سو ستر دنوں میں تین ہزار دو سو چالیس ارب روپے اکٹھے کر سکتے تھے۔ یہ رقم ایک سو پچاس روپے کا ڈالر بھی لگائیں تو دو سو سولہ ارب ڈالر اکٹھے کر سکتے تھے اور اس میں سے آئی ایم ایف کا سارا قرضہ اس کے منہ پر مارا جا سکتا تھا۔ لیکن گفتگو اور کام میں اتنا ہی فرق ہے جتنا نیت اور اہلیت میں ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website