کابل / واشنگٹن: افغانستان کے دارالحکومت میں امریکی سفارتخانے کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے۔
سفارتخانے کو بند کرنے کی بظاہر وجہ مزار شریف میں جرمن قونصل خانے اور بگرام ایئربیس پر حملہ خیال کیا گیا ہے۔ سفارتخانے کی بندش عارضی بتائی گئی ہے اوراس دوران مزید سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ہفتے کے روز افغانستان میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی ایئر بیس پر طالبان کے خودکش حملے میں 4 افراد ہلاک جبکہ 16 زخمی ہو گئے تھے۔ ادھر امریکی وزیردفاع ایشن کارٹر نے کہا ہے کہ افغانستان میں فوجیوں کی حفاظت ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور بگرام دھماکے کی تحقیقات کریں گے۔ کارٹر نے حملہ آوروں کو پیغام دیا کہ وہ ان کارروائیوں سے اپنے ملک کے دفاع اور افغانستان کی مدد کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ علاوہ ازیں افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبی نے پاکستان پر طالبان کی فوجی مدد کرنے اور انھیں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے2014کے آخر میں ریڈ فورس یا ریڈ بریگیڈ کے نام سے ایک حملہ آور فوج تشکیل دینے میں طالبان کی مدد کی تھی۔
امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبی نے کہا کہ پاکستان نے 2014 کے آخر میں ریڈ فورس یا ریڈ بریگیڈ کے نام سے ایک حملہ اور فوج تشکیل دینے میں طالبان کی مدد کی تھی اور اس فورس نے2015 کے شروع میں اپنی کارروائیاں شروع کر دی تھیں جب زیادہ تر بین الاقوامی فورسز ملک چھوڑ کر واپس چلی گئی تھیں اور ملک میں نگرانی کا نظام محدود ہوگیا تھا۔صوبہ ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے میں 13غیر ملکیوں سمیت داعش کے 23 جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ افغان حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ مزارشریف میںجرمن قونصل خانے پر حملے کامنصوبہ 6 ماہ قبل پاکستان میں بنایا گیا تھا۔ صوبہ بلخ کے قائمقام گورنر محمد اسحاق سروری کا کہنا ہے کہ ایک گرفتار خود کش بمبارنے اعتراف کیا ہے کہ اسے خود کش حملہ کرنے کے لیے 2 ماہ قبل پاکستان میں تربیت دی گئی تھی۔