خدانخوستہ سڑک پر کوئی حادثہ ہو تو آس پاس کھڑے لوگ حادثے میں زخمی ہونے والوں کی مدد کرتے یا کم از کم ایمبولینس بلانے کے لیے فون تو کرتے ہیں۔ لیکن بھارت میں صورتحال مختلف ہے۔بھارتی سڑکوں کا شمار دنیا کی خطرناک سڑکوں میں ہوتا ہے کیونکہ عام طور پہ حادثے کے شکار لوگوں کو اکثر سڑک پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں دہلی میں کنہیا لال نامی آدمی بیوی اور دو بچوں کے ساتھموٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک گاڑی نے اسے ٹکر ماری اور فرار ہو گئی۔حادثہ اتنا شدید تھا کہ اس کی بیوی اور بچی فوراً چل بسے۔جبکہ کنہیا لال اور اس کا بیٹا شدید زخمی ہوئے۔کنہیا لال مدد کے لیے پکارتا ،چیختا چلاتا رہا لیکن آس پاس سے گزرنے والے موٹر سائیکل سواروں کو کوئی پروا نہیں تھی۔
اس حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھارتی میڈیا میں نشر ہوتے ہی اس خاندان پر گزرنے والے کرب کا اندازہ لوگوں کو ہوا۔ حادثے نے بھارت میں سڑک پر لوگوں کے رویّے کے بارے میں بحث کا آغاز کر دیا۔جب موٹر سائیکل سوار اور پولیس کنہیا لال اور ان کے خاندان کی مدد کے لیے آئی تو دیر ہو چکی تھی۔ کنہیا بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو چکے تھے۔ ب میڈیا میں ایسی ہیڈلائنز لگیں کہ’’وہ دن، جب انسانیت مر گئی۔‘‘
روڈ سیفٹی پہ تحقیق والے محقق، پیوش تیواڑی کا کزن بھی دس برس قبل سڑک پر حادثے کا شکار ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ اسے خون میں لت پت دیکھ کر رکے تو سہی لیکن مدد کسی نے نہیں کی۔وہ سڑک پر تڑپتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔اس حادثے جے بعد مسٹر تیواڑی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر لوگ کیوں ایسے کرتے ہیں؟ تحقیق سے پتا چلا کہ وہ لوگ جو مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں ، پولیس کے خوف اور بلا وجہ تنگ کرنے کی وجہ سے حادثے کے شکار لوگوں کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اکثر جب کوئی کسی کی مدد کرے تو پولیس یہ سمجھتی ہے کہ وہی قصور وار ہے۔
مدد کے لیے آگے نہ آنے کی وجہ صرف پولیس نہیں بلکہ کورٹ کچہری کے چکر اور ہسپتال میں حادثے کے شکار شخص کا میڈیکل بل ادا کرنے کا ڈر بھی ہے۔تیواڑی کا کہنا ہے کہ جس ملک میں اچھی ایمرجنسی سروسز ہوں وہاں تو ایسے حادثات میں ایمبولینس اور پولیس فورا جائے حادثہ پر پہنچ جاتی ہے۔ لیکن بھارت میں ایمبولینسوں کا فقدان ہے۔ اگر ایمبولینس پہنچ بھی جائے تو اس میں زندگی بچانے والے آلات کی کمی ہوتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بم دھماکوں یا بڑے ٹرین حادثات میں لوگ عام ٹریفک حادثات کی نسبت مدد کی لیے بڑی تعداد میں آگے بڑھتے ہیں۔ وجہ یہ کہ بڑے حادثات میں مدد کرنے والے پر کسی طرح کے الزامات لگنے کے امکانات خاصے کم ہوتے ہیں۔
گزشتہ برس جولائی میں انیتا جندال کا بیس سالہ سکوٹر سوار بیٹا ،وجے دہلی میں حادثے کا شکار ہوا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ آس پاس بہت سارے لوگ جمع ہیں لیکن وجے کی مدد کسی نے نہیں کی۔انیتا جندال کہتی ہے کہ اگر کسی نے اس کی مدد کی ہوتی تو آج اس کا بیٹا زندہ ہوتا۔
یاد رہے،بھارت میں سڑک کے حادثات میں ہر گھنٹے میں پندرہ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔روزانہ بیس بچے ان حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔گزشتہ ایک دہائی میں سڑک کے حادثات میں دس لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ۔گزشتہ دس برس میں پچاس لاکھ افراد سڑک کے حادثات میں یا زخمی یا معذور ہوئے۔ان حادثات سے ہر سال انڈیا کو جی ڈی پی کے تین فیصد کے برابر مالی نقصان ہوتا ہے۔