بچپن سے چونڈہ دیکھنے کی خواہش تھی۔ 1965میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹینکوں کی ایک بڑی لڑائی کا میدان دیکھنے کی خواہش اس ناچیز کو چونڈہ لے گئی لیکن میں وہاں سے شہری پنجاب اور دیہی پنجاب میں کشمکش کی کہانیوں کے ساتھ لوٹا۔ ارادہ تو صرف یہ تھا کہ چھ ستمبر کو یوم دفاع کے موقع پر جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں1965کی جنگ کے غازیوں اور عینی شاہدوں سے گفتگو کی جائے لیکن چونڈہ پہنچا تو پتہ چلا کہ اس جنگ کے شہداء کی یادگاریں پھلورا اور گڈگور سے لے کر سچیت گڑھ تک پھیلی ہوئی ہیں لہٰذا تمام دن اس سرحدی علاقے میں گھومتا رہا۔ اس علاقے میں 1965کی جنگ کے شہداء اور غازیوں کی بہادری کی اتنی داستانی بکھری ہوئی ہیں کہ کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور ایک پورا’’وار میوزیم‘‘ بنایا جاسکتا ہے لیکن میں جہاں بھی گیا تو بزرگوں نے1965کے واقعات سنانے کے بعد کہا کہ ذرا ہماری سڑکوں کی حالت دیکھ لو، ذرا ہمارے اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی دیکھ لو، ہم پاک بھارت سرحد پر رہتے ہیں کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں وہ سہولتیں نہ ملیں جو سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لاہور کو مل رہی ہیں؟اس علاقے میں جموں کے مہاجرین بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے کے وفاقی وزیر زاہد حامد کے خلاف شکایات کا انبار لگادیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے ووٹ کیوں دئیے؟ جواب ملا کہ علاقے کے ایم پی اے رانا لیاقت نے کچھ سڑکیں شروع کرائی ہیں لیکن زاہد حا مد کبھی کبھی آتے ہیں آئندہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر نے کہا کہ ہمیں اپنے آرام و سکون کے لئے سڑکیں نہیں چاہئیں ہم چاہتے ہیں کہ ہر سال چھ ستمبر کو آس پاس کے شہروں سے اسکولوں کے بچے یہاں آئیں اور ہم انہیں بتائیں کہ ہم نے1965میں اپنی فوج کے ساتھ مل کر مادر وطن کا کیسے دفا ع کیا تھا لیکن برسات کے موسم میں یہاں آنا مشکل ہوجاتا ہے اور جو آجائے اس کے لئے کیچڑ میں چلنا پھرنا دشوار ہوجاتا ہے اس لئے حکومت سے گزارش ہے کہ لاہور میں پہلے سے بنی بڑی بڑی سڑکوں کو توڑ توڑ کر پھر سے بھلے بناتی رہے لیکن کچھ اچھی سڑکیں ہمارے دیہاتی علاقوں میںبھی بنادے۔ دیہی پنجاب کے یہ شکوے میرے لئے غیر متوقع تھے۔
چھ ستمبر کو عمران خان نے کراچی میں تحریک انصاف کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے24ستمبر کو وزیر اعظم نواز شریف کی رائیونڈ میں رہائش گاہ کا گھیرائو کرنے کا اعلان کیا تو میں سوچنے لگا کہ کیا دیہی پنجاب کے ناراض لوگ عمران خان کے احتجاج میں شریک ہوں گے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ عمران خان کو شہری علاقوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے لیکن دیہی علاقوں میں انہیں نواز شریف کے متبادل کے طور پر بہت کم لوگوں نے تسلیم کیا ہے۔ اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے تحریک انصاف نے پاور پالٹیکس کے روایتی طریقوں پر عمل کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں ایسے لوگوں کو ٹکٹیں دینی شروع کردی ہیں جو کچھ سال پہلے تک ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر عمران خان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حکمران مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ووٹوں کا فرق کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمران مسلم لیگ(ن) جگہ جگہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لئے کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کرسکی۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے لوگوں کو کچھ ریلیف ملا ہے، کئی عالمی ادارے یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت سدھر رہی ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ دیہی علاقوں میں بارہ سے سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ معیشت سدھر نے کے دعوئوں کے باوجود تاجر طبقہ حکومت پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں۔ عمران خان کی اصل طاقت ان کی مقبولیت نہیں بلکہ حکومت کی کمزوریاں ہیں اور اگر عمران خان نے پیپلز پارٹی کو اپنے ساتھ ملالیا تو حکومت کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا کہنا ہے کہ عمران خان نے24ستمبر کو رائیونڈ کی طرف مارچ کی کال ان سے پوچھ کر نہیں دی۔24ستمبر کو وزیر اعظم نواز شریف پاکستان میں نہیں ہوں گے بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے لئے نیویارک میں ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف عام طور پر رائیونڈ میں نہیں بلکہ ماڈل ٹائون لاہور والی رہائش گاہ میں ہوتے ہیں۔ رائیونڈ میں وزیر اعظم نواز شریف کی ضعیف العمر والدہ رہائش پذیر ہیں لیکن وزیر اعظم کے فارم ہائوس کا گھیرائو کرنے کے اعلان کی ایک اپنی سیاسی اہمیت ہے۔ اس سیاسی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے عمران خان کو بلاول بھٹو زرداری سے خود ملاقات کرنی پڑے گی۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری فون پر بات چیت کرلیں اور پھر خورشید شاہ اور اعتزاز احسن کے ساتھ مل کر ایک پریس کانفرنس کردیں۔ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں کا خیال ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کو مسترد کرکے اور عمران خان کے خلاف ریفرنس کو درست قرار دے کر صرف اپنی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ بہتر ہوتا کہ وہ اپنی ذاتی رائے کا اظہار کئے بغیر تمام ریفرنسز الیکشن کمیشن کو بھیج دیتے لیکن انہوں نے اپنے ریمارکس دے کر سیاسی افراتفری کے نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔پیپلز پارٹی سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کرچکی ہے لیکن وہ یہ نہیں چاہتی کہ عمران خان کے ساتھ مل کر ایسے حالات پیدا کردئیے جائیں کہ صرف چند ہفتوں بعد ریٹائر ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کنگ میکر بن جائیں۔جنرل راحیل شریف نے2014میں بھی عمران خان سے ملاقات کی تھی لیکن ملاقات کے نتائج عمران خان کی توقعات کے مطابق نہیں نکلے لیکن اس مرتبہ شیخ رشید احمد کو جنرل راحیل شریف کے کردار سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ کیا ایک آرمی چیف آئین کے اندررہ کر اپوزیشن کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی تائید و رہنمائی درکار ہے لیکن یہ کب اور کیسے میسر آسکتی ہے آئینی ماہرین کچھ کہنے کے لئے تیار نہیں۔ جو بہت کچھ جانتے ہیں وہ بہت کم لب کھولتے ہیں۔
نئی سیاسی صف بندی میں مولانا فضل الرحمان بدستور نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عمران خان نے کراچی کی تقریر کے ذریعہ اسفند یار ولی کو بھی نواز شریف کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے الطاف حسین پر تنقید کی لیکن فاروق ستار کو چھوڑ دیا۔ چودھری نثار علی خان نے پیپلز پارٹی کو عمران خان کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جماعت اسلامی بھی وزیر اعظم کے خلاف عدالتوں کا رخ کررہی ہے۔ کچھ نکتہ دانوں کا اصرار ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے ’’کامن سینس‘‘ کی توہین کی ہے لیکن اصل فیصلہ انہیں نہیں عدالتوں کو کرنا ہے اور عدالتیں صرف عمران خان کے خلاف نہیں بلکہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گی۔ یہ تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف مز ید ٹھوس شہادتیں سامنے لائی جائیں۔’’صاحبان اسرار‘‘ کا اصرار ہے کہ کچھ ٹھوس شہادتیں دھرتی کا سینہ پھاڑ کر باہر آنے والی ہیں۔ انکشافات کا ایک طوفان ہوگا جس کی زد میں کئی صاحبان اقتدار کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی کئی شخصیات اور کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران کے غیر ملکی اکائونٹس بھی آئیں گے۔ شوکت خانم اسپتال بھی زیر بحث آئے گا۔ اس لڑائی میں عمران خان اور نواز شریف دونوں لہولہان ہو کر میدان سے باہر جاسکتے ہیں۔ یہ مت پوچھئے فائدہ کون اٹھائے گا یہ سوچئے دونوں کو اس جنگ میں کون دھکا دے رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ