counter easy hit

پہلی بابا گرو نانک کانفرنس

اس سال بابا گرو نانک کے 548 ویں جمنستان پر لاہور کے پہلو میں کھڑے علم و آگہی کے ترجمان ننکانہ شریف حاضری کا شرف ہوا۔ پِلاک نے پنجاب کے تمام عظیم صوفی سوجھوانوں کے دربار پر جا کر کانفرنسز کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس کا آغاز بابا گرو نانک سے ہونا اِس بات کا شاہد ہے کہ ہمارے درمیان عرفان، محبت، زبان اور ثقافت کی گہری سانجھ موجود ہے۔ ہم امن دھرتی کے وسنیک انسانوں کو تقسیم کرنے والے تمام ٹھیکیداریوں سے ماورا ہیں۔ مجھے بابا گرو نانک کے کلام میں بابا بلھے شاہ کے کلام کی گونج سنائی دیتی ہے کیوں کہ بلھے کی طرح گرو نانک بھی مہر داس اور فتح محمد کو ایک ہی ہستی کا پرتو سمجھتے ہیں۔ مجھے بابا گرو نانک کے کلام میں شاہ حسینؒ کا ’نی تینوں ربّ نہ بھُلّی‘ رچا بسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ پیغام توحید اور ایکتا کی طرف راغب کرنے کی سعی ہے۔ گرُو کا لفظ گُر سے ہے۔ انسان گُر کے بغیر مٹی کا پُتلا ہے یا صرف حیوان ہے۔ گُر وہ باطنی دانش ہے، وہ الوہی گیان ہے جو پتھر کو ہیرے اور خاکی وجود کو نور میں ڈھال کر بے مثال بنا دیتا ہے۔ بابا گرو نانک نے ذات کے اندر کھڑکی کھول کر اپنے مالک کی جھلک کیا دیکھی اس پر تن من سے فریفتہ ہو گئے۔ ساری عمر اس کی محبت کا دم بھرتے رہے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا گوارا نہ کیا لیکن محبوب کا جلوہ ہر شے میں موجود تھا، جدھر دیکھتے صرف وہی نظر آتا کیوں کہ ہر چہرے میں منعکس تھا۔ ذات کے آئینے میں بھی صرف اسی کا نور جھلکتا تھا، ایک اکیلا مگر سب میں سمایا ہوا۔ یوں ہر منظر اور چہرے سے محبت ایمان کا حصہ بنتی گئی۔ شرک تو شاید ذات کے اندر براجمان بتوں کا نام ہے۔ غرور اور انا پرستی کی علامت ہے۔ صوفی اپنی ریاضت سے نفی ٔ ذات کے مراحل سے گزر کر کائناتی روح سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو شرک کا باقی رہنا ممکن نہیں رہتا کیوں کہ صوفی راہِ حیات پر قدم قدم خیالِ غیر سے اجتناب کرتا اور سانس سانس محبوب کا ورد کرتا گزرتا ہے۔ اس کے سانسوں کی ڈوری وہ تسبیح ہے جس پر وجود ھُو کا کلمہ ثبت کر کے کائنات کو اپنی محبت کا گواہ بناتا ہے۔ بابا گرو نانک سے محبت کا اظہار ہمارے بلاوے میں پنہاں ہے۔ حالانکہ لفظ گرو احترام کا مظہر ہے مگر ہم دہری عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے بابا گرو نانک کہتے ہیں۔ ان کے دربار پر ہندوستان، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر کئی ممالک سے ہزاروں عقیدت مند موجود تھے جو وہاں جلتے عرفان کے چراغوں سے آنکھوں کے دیے روشن کرنے اور کرم کی فضائوں سے دلوں میں محبت کا احساس بھرنے کی چاہ لے کر آئے تھے۔ ان کے چہروں سے منعکس ہونے والی روشنی کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ اُن پر نگاہِ کرم ہو چکی ہے۔ ان کے دامن اور دل کے صحن پریم کے پھولوں سے بھرے جا چکے ہیں۔ ایک عجیب مستی کا عالم تھا۔ عقیدت اور محبت مِل جل رہے تھے۔ لوگ سر ڈھانپے سلام کرتے ہوئے خاموشی سے گزر رہے تھے مگر ان کے وجود کے اندر دھمال ہو رہی تھی۔ دھمال کسی ایک مقام پر فوکس ہونے کا نام ہے۔ لاہور سے جانے والے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے وفد کی کیفیت ان سے جُدا نہیں تھی۔ مہمانوں اور میزبانوں کی شکلیں اور بولی ایک تھی۔ کہیں کوئی اجنبی اور پرایا نہیں تھا، سب اپنے لگتے اور محسوس ہوتے تھے۔ دھرتی کی سانجھ اور زبان و ثقافت کی مشترک اساس بھی قربت کا باعث تھی۔ راشد محمود، اقبال قیصر اور حسن رائے نے بابا گرو نانک کی شاعری، تعلیمات اور فلسفے کی پرتیں کھولیں۔ غلام حسین ساجد، بلکار اولکھ، بابا نجمی، ، فریاد احمد جاوید اور راقم نے انہیں شعروں کے نذرانے پیش کئے۔ مبینہ اکبر، بشریٰ صادق اور سجاد بری نے بابا گرو نانک اور دیگر صوفیوں کے کلام کو سریلے انداز میں پیش کر کے محفل پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۔ پروفیسر جوگا سنگھ نے اس کانفرنس پر حکومت پنجاب اور محکمہ اطلاعات و ثقافت کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور پیغام بھیجا کہ حکومتِ پنجاب نے ستر سالوں میں پہلی بار سرکاری سطح پر بابا گرو نانک کانفرنس کا انعقاد کر کے ہمارے دل جیت لئے ہیں۔ ہم تو بابا گرو نانک کو صرف اپنا سمجھتے تھے یہاں آ کر پتہ چلا کہ بابا گرو نانک تو آپ کا اور ہمارا سانجھا ہے۔ تمام عقیدت مندوں کی نظروں میں بھی عجیب طرح کا اظہارِ تشکر تھا۔ ہم انہیں کیسے بتاتے کہ محبت تو پہلے بھی اتنی ہی تھی بس اظہار میں کچھ دیر ہو گئی۔

آج کا سوال یہ ہے کہ تقسیم کے وقت پنجاب کے دونوں اطراف آگ لگانے والی ذہنیت سے کیسے ہوشیار رہا جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں میں ہمیشہ نقصان پنجابیوں کا ہوا۔ اس کانفرنس سے ایک نئے سفر کی طرف پیش قدمی ہوئی ہے۔ دلوں پر ایک نیا عہد نامہ لکھا گیا ہے۔ محبت کے پیغام کی طرف لوٹنے کی بات ہوئی ہے۔ بابا گرو نانک نے ہندوستان کی ذات پات، دھرم، نفرت اور استحصال میں بٹی انسانیت کو وحدت الوجود کا عرق پلا کر وحدانیت کی رسی میں پرویا۔ صوفی ہمیشہ آفاقیت کی بات کرتا ہے۔ آقا اور محکوم کی نہیں صرف انسان کی بات کرتا ہے۔ آج اس پیغام کی روح کو سمجھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ ننکانہ صاحب سکھوں کا کعبہ قبلہ ہے۔ ان کے لئے پنجاب اور پاکستان ایک مقدس سرزمین ہے اور وہ اس کے استحقاق کو مجروح ہونے سے بچانے کے دل سے خواہش مند ہیں۔ اگر ہم سب مل کر مادیت کے جالوں میں جکڑی دنیا کو وحدانیت کی طرف لے کر چلیں تو نئی دنیا کا منظر نامہ بہت تابناک ہو سکتا ہے۔ رائے محمد خان ناصر اور کلیان سنگھ کلیان کے تعاون اور محبت کے شکریے کے لئے الفاظ ڈھونڈ رہی ہوں۔ یہ دونوں نیک ہستیاں اُمید اور مثبت سوچ کی علامت ہیں۔ اقبال نے بہت پہلے بابا گرو نانک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:
پھر اُٹھی صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
اگر ہم جاگ چکے ہیں تو امن، بھائی چارے اور خدمتِ خلق کا رستہ ہمارا منتظر ہے۔ آئیے سفر کا آغاز کریں۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website