لاہور (ویب ڈیسک) یہ بات بالکل درست ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے ہائیڈل بجلی کی پیداوار اور پانی کے ذخائر کے معاملے میں انتہائی سے زیادہ نااہلی دکھائی۔ ڈیم ملکی معیشت میں دو حوالوں سے براہ راست حصہ ڈالتے ہیں۔ سستی بجلی کی فراہمی اور پانی کے ذخائر میں اضافہ۔
نامور کالم نگار خالد مسعود اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن جلدی اور نسبتاً سستے بن جانے والے تھرمل بجلی کے پراجیکٹس گزشتہ حکومتوں کی ترجیح رہے ہیں۔ اس میں کمیشن اور کک بیک کی سہولت علیحدہ ہے۔ کمیشن وغیرہ تو خیر یہ فنکار حکمران ڈیم سے بھی نکال لیتے لیکن اس کی تعمیر کی مدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ شروع کوئی کرتا ہے اور افتتاح کسی اور حکومت کا مقدر بنتا ہے۔ اس حوالے سے ” نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ کے مصداق، سابقہ حکمرانوں نے تھرمل اور کرائے کے بجلی گھروں سے کام چلانا شروع کر دیا۔ انڈین سرمائے سے کام کرنے والی بعض این جی اوز نے مقامی لوگوں کو بزرگوں کی زمین، آبائو اجداد کی قبروں اور آبائی گھروں کی بربادی کے نام پر اکسایا اور گزشتہ پچاس سال میں ایک بھی قابل ذکر ڈیم نہ بننے دیا۔ کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا اور باقی ڈیم کمیشن کی۔ اب سپریم کورٹ نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کے نام پر فنڈ اکٹھا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ فنڈ چھ جولائی کو قائم کیا گیا اور ملک کے طول و عرض سے اس فنڈ میں عطیات کے علاوہ بیرون ملک سے بھی عطیات آنے شروع ہوگئے۔ اوپر سے عمران خان نے بھی اس فنڈ میں عطیات کی اپیل کر دی۔
امید تھی کہ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں بسنے والے پاکستانی ‘جن کی غالب اکثریت تحریک انصاف کی حامی اور عمران خان کی مداح ہے اس فنڈ میں غیر معمولی عطیات بھیجیں گے لیکن یہ خیال بھی خام ثابت ہوا۔ اور کم از کم پیسے بھیجنے کے حوالے سے مغرب میں بسنے والے پاکستانیوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ چھ جولائی 2018 کو قائم ہونے والے اس فنڈ کو اب تک (مورخہ 5 نومبر 2018 تک) کل 122 دن گزر گئے ہیں اور ان ایک سو بائیس روز میں سات ارب 37 کروڑ نو لاکھ پچاس ہزار پانچ سو دس روپے (7,37,09,50,510) جمع ہوئے ہیں۔ اس رقم میں بھی کسی ایک ادارے کا سب سے بڑا عطیہ پاک فوج کی جانب سے ایک دن کی تنخواہ کی مد میں دیئے جانے والے ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے ہیں۔ یہ رقم کل جمع شدہ رقم کا اکیس فیصد ہے بیرون ملک رہائشی پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقم بظاہر کروڑوں میں ہے لیکن جمع شدہ عطیات سے موازنہ کریں تو یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ یہ رقم پانچ کروڑ روپے سے بھی کم ہے یعنی کل جمع شدہ رقم کا اعشاریہ چھ فیصد۔ ویسے تو منطقی طور پر یہ بات طے ہے کہ
اس فنڈ میں جمع ہونے والی رقم کی شرح اب روز بروز کم ہوتی جائے گی کہ اب اس فنڈ میں مختلف اداروں کی جانب سے عطیہ کی جانے والی بھاری رقوم شاید دوبارہ نہ مل سکیں۔ سرکاری اور دیگر پرائیویٹ اداروں کے ملازمین بھی روز روز اپنی ایک دن کی تنخواہ اس فنڈ میں عطیہ نہیں کریں گے لیکن اگر ہم فرض کرلیں کہ اس فنڈ میں عطیات اسی رفتار سے آتے رہیں گے تو بھی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔ بلکہ خاصی خراب اور حوصلہ شکن ہے۔ کل 122 دن میں سات ارب 37 کروڑ نو لاکھ پچاس ہزار اور پانچ سو دس روپے جمع ہوئے ہیں۔ فی یوم کے حساب سے یہ رقم چھ کروڑ چار لاکھ سترہ ہزار چھ سو ستائیس روپے بنتی ہے۔ ڈیم کے لئے کل چودہ سو ارب روپے چاہئیں۔ اگر عطیات اسی رفتار سے آتے رہے تو مبلغ چودہ سو ارب روپے تیئس ہزار ایک سو بہتر دن میں وصول ہو جائیں گے یعنی تقریباً ساڑھے تریسٹھ سال میں، بشرطیکہ اس دوران ڈیم کی تعمیر کے اخراجات میں ایک پیسہ بھی اضافہ نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کو بہرحال جاری رکھنا چاہئے لیکن اس دوران مقدمات کو نمٹانے کی رفتار بڑھا دی جائے تو مجھے یقین ہے یہ کام بھی ناممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ قارئین! معاف کریں۔ میں نے کہا ہے ناں کہ میرے ذہن میں ایسے سوال آتے رہتے ہیں جن کا میرے پاس نہ کوئی جواب ہے اور نہ کوئی حل۔