لاہور (ویب ڈیسک) حالات اب کس طرف کو چل نکلے ہیں، حیرتوں کی ایک لمبی کتھا ہے جو سلجھنے میں نہیں آ رہی۔ زندہ کرداروں کی موجودگی میں ویڈیوز اور آڈیوز کے ذریعے کہانیوں کی بنت کیا معنی رکھتی ہے، کوئی ہے جو اس مسئلہ فیثا غورث کو حل کرے۔ مریم نواز میں ایک مقبول سیاسی لیڈر بننے کی نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تمام علامتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں،مگر نجانے کیوں ایسے راستوں پر چل نکلی ہیں جو سیاست سے لگا نہیں کھاتے…… وہ بڑے جلسے کرتی ہیں، اچھی تقریریں بھی کر لیتی ہیں، اُن کے جملوں میں بڑی کاٹ بھی ہوتی ہے۔اُن کی باتوں کو میڈیا بہت اہمیت بھی دیتا ہے، پھر انہیں کیا ضرورت پیش آئی کہ ایک ایسی ویڈیو سامنے لے آئیں، جس کی آڈیو تک بعد میں ریکارڈ کی گئی اور جسے خود انہوں نے بھی تسلیم کیا۔ویڈیو کا تو مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس میں ویڈیو اور آڈیو بیک وقت ریکارڈ کی گئی ہیں، ڈبنگ والے معاملے کو تو ویسے ہی مشکوک قرار دیا جاتا ہے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے چیئرمین نیب کی جو مبینہ ویڈیو سامنے آئی،اس کی آڈیو ویڈیو ایک ہی تھیں، مگر اس کے باوجود اس کی صحت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور معاملہ شکوک و شبہات کی نذر ہو کر ختم ہو گیا۔چیئرمین نیب نے بھی اُس ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا، اب اگر ایک جیتا جاگتا کردار یہ کہہ دیتا ہے کہ ویڈیو جعلی ہے، تو پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ اس کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔ مریم نواز کی پیش کردہ ویڈیو کا فرانزک آڈٹ تو خود انہوں نے یہ تسلیم کر کے کر دیا کہ اُس کی آڈیو علیحدہ سے ریکارڈ کی گئی۔ اُدھر احتساب کورٹ کے جج ارشد ملک نے اپنے وضاحتی بیان میں ویڈیو کو خلاف حقائق اور جعلی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ویڈیو میں اُن سے جو باتیں منسوب کی گئی ہیں، وہ انہوں نے کبھی کہی ہی نہیں،اپنے پر کسی قسم کے دباؤ کی بھی انہوں نے تردید کر دی اور یہ بھی کہا کہ مجھ پر دباؤ ہوتا تو مَیں نواز شریف کو ایک کیس میں بری اور دوسرے میں سزا نہ سناتا۔انہوں نے تسلیم کیا ناصر بٹ اور اُن کے بھائی عبداللہ بٹ اُن سے کئی بار مل چکے ہیں، لیکن مَیں انصاف کے لئے پُرعزم رہا۔ اب سوال یہ ہے کہ جج صاحب اگر ویڈیو میں بیان کی گئی گفتگو کے مطابق اتنے ہی خوفزدہ تھے، نیز انہیں خود کشی کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، تو پھر وہ فیصلے کے بعد ملک سے باہر کیوں نہیں چلے گئے، کیوں آج تک بطورِ جج فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور سارے ہائی پروفائل کیسز آج بھی اُن کی عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ اگر یہ ویڈیو واقعی اتنا بڑا ثبوت تھا تو اسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی درخواست ضمانت کے موقع پر پیش کیوں نہیں کیا گیا۔ایک اچھا فورم یہ بھی ہے کہ جس سات سالہ سزا میں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل گئے ہیں، اُس کی اپیل بھی زیر سماعت ہے،اُس کے لئے بھی یہ ویڈیو ایک کارآمد شہادت ثابت ہو سکتی ہے کہ جج نے شواہد کے بجائے دباؤ کی بنیاد پر ہمارے خلاف فیصلہ دیا۔ میڈیا کے ذریعے مریم نواز نے ایک بہت بڑا دھماکہ تو کر دیا ہے، سنسنی بھی پھیلا دی ہے، مگر جب کوئی چیز پبلک ہو جاتی ہے تو اُس کے بخیے بھی اُدھیڑے جاتے ہیں۔الزام لگانا آسان اور اُسے ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جو سوال میرے ذہن میں کھٹک رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر یہ ویڈیو بالفرض اصلی بھی ہے تو کیا اسے منظر عام پر لانے کے لئے یہ طریقہ اختیار کرنا چاہتے تھا،جو مریم نواز نے کیا اور پارٹی کے صدر شہباز شریف اور نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو اپنے ساتھ بٹھایا۔کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس ویڈیو کو کسی چینل کے ذریعے بریک کیا جاتا یا مسلم لیگ (ن) کا کوئی ایم این اے یا ترجمان اسے صحافیوں کے سامنے رکھتا۔ سب سے بڑی مسلم لیگی قیادت اس ویڈیو سیکنڈل میں شامل ہو گئی ہے اور اگر کل کلاں یہ ویڈیو فرانزک آڈٹ میں جعلی ثابت ہوتی ہے تو اُن کی ساکھ کا کیا بنے گا۔ مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ نواز شریف کے لئے آخری حد تک جانے کا جو کہتی ہیں،وہ آخری حد یہی ہے۔ایک سیاست دان کی زبان سے یہ بات جچتی نہیں۔کاش وہ اسے اپنی آخری حد نہ کہتیں،بلکہ اپنی سیاسی جدوجہد اور احتجاجی تحریک کو آخری حد گردانتیں، ایک مشکوک ویڈیو سے وہ کوئی بڑا مقصد کیسے حل کر سکتی ہیں،اس طرح تو بہت آسان ہو جائے کہ کوئی بھی منصوبہ بندی یا ٹیکنالوجی کے استعمال سے کوئی ویڈیو بنائے اور اسے چلا دے،اُس کے چلتے ہی سارے مسائل حل ہو جائیں، اقتدار والے بے اقتدار ٹھہریں اور جو بے اقتدار ہیں،وہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو جائیں۔ مبینہ ویڈیو میں جج ارشد ملک کو ایک ایسا کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے جو بہت ڈرپوک، خوفزدہ اور چھوٹے دِل کا مالک ہے،جو اپنی ذمہ داری چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتا ہے، لیکن اسے اجازت نہیں مل رہی، جبکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ وہ روزانہ کیسوں کی سماعت کر رہے ہیں،اُن کا ملزموں سے سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہو جاتا ہے، انہوں نے کسی بھی موقع پر چیف جسٹس کے سامنے یہ درخواست نہیں رکھی کہ انہیں خطرات لاحق ہیں، اِس لئے وہ کام جاری نہیں رکھ سکتے، پھر یہ کہانی کیسے سچ ثابت ہو جو مریم نواز نے پریس کانفرنس میں بیان کی ہے؟اس کہانی کا سب سے بڑا کردار تو جج ارشد ملک ہیں۔ اگر چیف جسٹس سو موٹو ایکشن لے کراس معاملے کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے جج ارشد ملک سے ہی پوچھا جائے گا کہ ویڈیو میں جو کچھ کہا گیا ہے، کیا واقعی انہوں نے کہا ہے۔ظاہر ہے وہ انکار کریں گے جو پریس ریلیز میں کر بھی چکے ہیں،پھر اس معاملے کو کیسے ثابت کیا جا سکے گا؟ ہاں اس کا انکشاف اگر وہ خود کرتے، اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے تو بہت بڑا دھماکہ تب ہونا تھا، اب تو اُن کے بیان نے اس سارے ڈرامے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ مریم نواز نے اس پریس کانفرنس میں جس طرح عدلیہ کو متنازعہ بنانے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بعض خفیہ ہاتھ نواز شریف کو سزا دِلانا چاہتے ہیں،اِس لئے یہ سارا کھیل کھیلا گیا،اُس نے اُن کے پرانے موقف کی یاد تازہ کر دی جو وہ نواز شریف کی نااہلی اور سزا کے بعد سے اپنائے ہوئے ہیں، جس میں وہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان اور آرمی کے جرنیلوں کو بھی ہدفِ تنقید بناتی رہی ہیں۔ اگر وہ یہ ویڈیو خود منظر عام پر لانا چاہتی تھیں تو انہیں عدلیہ کو بحیثیت ادارہ نشانہ بنانے کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرنی چاہئے تھی کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور معاملے کی انکوائری کرائیں، لیکن اُن کا بیانیہ تو اب بھی وہی ہے کہ پورا نظام نواز شریف کے خلاف ہے اور انہیں مرسی بنانا چاہتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات پیش نظر رہے کہ احتساب عدالت کوئی انصاف کا آخری فورم نہیں،اوپر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جیسے بڑے فورمز موجود ہیں۔اگر احتساب کورٹ کے جج نے فیصلے میں دباؤ پر واقعی قانونی غلطیاں کی ہیں اور غلط شواہد کی بنیاد پر نواز شریف کو سزا سنائی ہے تو انہیں ہائی کورٹ کے سامنے لایا جائے۔ جن بڑے وکلاء نے نواز شریف کے کیسز لڑے ہیں،انہیں فیصلے میں یہ نقائص کیوں نظر نہیں آئے،جن کی احتساب کورٹ کے جج ارشد ملک اس مبینہ ویڈیو میں نشاندہی کرتے سنائی دے رہے ہیں اور اگر یہ نکات اب سامنے آ ہی گئے ہیں، تو اُن کی بنیاد پر نواز شریف کی اپیل جلد سننے کی درخواست کیوں نہیں کی جا رہی؟میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مریم نواز حد درجہ ذہنی دباؤ میں ہیں، وہ اس دباؤ کے نتیجے میں سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف اُن کے لئے ایک ڈھال ثابت ہو سکتے ہیں،بشرطیکہ وہ اُن کی رہنمائی قبول کریں،مگر لگتا ہے وہ جس آخری حد تک جانے کا فیصلہ کر چکی ہیں،اُس میں شہباز شریف کی رہنمائی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔حالیہ پریس کانفرنس میں بھی انہوں نے مائیک بدلنے کی بجائے سیٹ بدل کر گفتگو کی اور یہ تاثر دیا کہ اُن کا بیانیہ ہی اب مسلم لیگ(ن) کی اصل آواز ہے۔