لاہور (ویب ڈیسک) عثمان بزدار بھی عجب خوش قسمت آدمی ہے۔ وزیراعظم نے کئی بار اُن کی تبدیلی کا قطعی فیصلہ کیا مگر کوئی نہ کوئی وجہ ایسی بن گئی کہ فیصلے کی گاڑی لیٹ ہو گئی۔ ویسے یہ گاڑی مس ابھی تک نہیں ہوئی۔ گزشتہ ماہ بھی فیصلے کی گاڑی اسٹیشن پر پہنچنے نامور کالم نگار منصور آفاق اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لگی تھی مگر کسی برگزیدہ فنکار کی فنکارانہ کرامت نے سگنل کو سبز ہونے سے روک دیا۔ سبطین خان وزیراعلیٰ ہونے کو تھے کہ نیب نے انہیں بارہ سال پہلے اختیارات غلط استعمال کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ انہیں کہہ دیا گیا تھا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ پی ٹی آئی کے ان ایم پی ایز کو جمع کیا جن سے متعلق انہیں یقین تھا کہ مختلف وزارتیں انہیں دی جائیں تو ان وزارتوں کی کارکردگی پہلے سے کہیں بہتر ہو جائے گی۔ مشورے ہونے لگے کہ حقیقی تبدیلی کے لئے کیا کیا ہونا ہے۔ پولیس میں اصلاحات کیسے کرنا ہیں۔ بیورو کریسی کے جن کو بوتل میں کیسے بند کرنا ہے۔ خبر خوشبو کی طرح پھیل گئی۔ وہ لوگ جو عثمان بزدار کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں، اُن کا نمائندہ بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچا۔ برگزیدہ فنکار جمع ہو گئے۔ شطرنج کی بساط بچھ گئی۔ چالیں سوچی جانے لگیں۔ ایک پرانی چال دھرانے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ بہرحال اُسے مینج کر لیا گیا اور سبطین خان کو دس پندرہ سال پرانے کسی کیس میں نیب نے گرفتار کر لیا۔ عثمان بزدار کو تھوڑے سے دن اور مل گئے۔ سبطین خان کی بے گناہی کے لئے گزشتہ روز کی عدالتی کارروائی ہی کافی ہے۔ عدالت نے نیب کو مزید ریمانڈ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اتنے دن سبطین خان کو جسمانی ریمانڈ پر اپنی تحویل میں رکھا، آپ بتا سکتے ہیں آپ نے سبطین خان سے کیا برآمد کیا، چلیں یہ بتائیں کہ مزید ریمانڈ کس بنیاد پر آپ لینا چاہتے ہیں، آپ کو ایسا کیا پوچھنا ہے سبطین خان سے جو ابھی نہیں پوچھ سکے؟ ایک شخص نے آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہا کہ سبطین خان کے حامیوں کی ایک کثیر تعداد عدالت کے باہر موجود تھی۔ عدالتی فیصلے کے بعد کتنی دیر تک احاطہ عدالت سبطین خان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ سردار محمد سبطین خان نے کمرۂ عدالت کے باہر اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’آج حق اور سچ کی فتح کا دن ہے میرا کردار آپ سب لوگوں کے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ میرا پہلے دن سے موقف رہا ہے کہ میرا دامن صاف ہے، اگر مجھ پر ایک رو پے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔ یہ جو میں نے اوپر واقعہ بیان کیا ہے یہ بڑے ہولناک سوالات جنم دے رہا ہے۔ عجیب و غریب سلگتے ہوئے سوال۔ کیا عمران خان کے گرد و نواح ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ایک روپے کے مفاد کے لئے ملک و قوم کے ہزاروں روپے کا نقصان کر دیتے ہیں۔ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دلانے میں خصوصی کردار ادا کیا تھا۔ کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کی بھرپور کوششیں علیم خان کی گرفتاری میں شامل تھیں؟ مگر ان سب سوالوں نے ایک بڑا سا سوالیہ نشان نیب پر لگا دیا ہے۔ نیب جس نے نواز شریف کے کیس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ نیب جس نے آصف زرداری کے بزنس اکائونٹس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ نیب جس نے پیراگون سوسائٹی کے بے نامی قابض سعد رفیق کے سارے حقائق عدالت میں پیش کر دئیے۔ ایک ایسے، قابلِ اعتماد ادارے نے یہ کیا کیا؟ اُس ادارے نے جس پر پوری قوم بھروسہ کئے کھڑی ہے۔ آخر چیئرمین نیب نے سبطین خان کی گرفتاری کی اجازت کیسے دی۔ یہ سب کچھ کیسے مینج کیا گیا۔ چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے دو ماہ قبل میری تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ سچے اور کھرے آدمی ہیں۔ ان کے ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہیں۔ ہر بات کھل کر کہہ دیتے ہیں۔ نیب کے معاملات کو جتنے بہتر انداز میں انہوں نے آگے بڑھایا اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لاہور کے ڈی جی نیب شہزاد سلیم بھی ایسے آدمی ہیں کہ انہیں سونے سے تولا جانا چاہئے۔ جتنی جانفشانی سے وہ کام کرتے ہیں شاید ہی کوئی اور افسر اتنی محنت اور اتنی لگن سے کام کرتا ہو مگر ان کے علاوہ اکیس سو افراد اور بھی تو نیب میں کام کرتے ہیں۔ یقیناً انہی میں سے کسی نے سبطین خان کے خلاف جھوٹے ثبوت چیئرمین نیب کے سامنے رکھ کر اُن سے سبطین خان کی گرفتاری کی اجازت لی ہوگی۔ اس سلسلے میں چیئرمین نیب کو فوری طور پر تحقیقات کرانا چاہئیں اور عمران خان کو بھی اس سلسلے میں پوری انکوائری کرانا چاہئے کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا۔ بے شک سبطین خان کو اگر پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا جاتا تو پنجاب میں وہ تمام تبدیلیاں جن کے تمنائی خود عمران خان ہیں، چند مہینوں میں آ جاتیں۔ اللہ تعالی نے سبطین خان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں انتہائی سمجھدار آدمی بھی ہیں۔ انتہائی امانت دار شخص ہیں۔ سراپا اخلاق اور اخلاص کا پیکر۔ انہوں نے ہمیشہ الیکشن اپنی زمین کا کچھ حصہ بیچ کر لڑا ہے۔ پانچ مرتبہ ایم پی اے بنے، تین مرتبہ وزیر رہے مگر مالی کرپشن کا کوئی داغ ان کے دامن کو داغ دار نہیں کر سکا۔ جس مقدمے میں انہیں اب نیب نے گرفتار کیا ہے یہ بھی کوئی مالی کرپشن کا کیس نہیں۔ اختیارات کے غلط استعمال کا مقدمہ ہے اور اس کے اصل ذمہ دار اُس وقت کے وزیراعلیٰ ہیں۔ یہ تو ایسی شخصیت ہیں کہ ہمیشہ عام آدمیوں کی طرح عام لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اپنی تقدیر پر شاکر رہنے والی شخصیت ہیں۔ مجھے یاد ہے جب وہ معدنیات کے وزیر تھے تو معروف شاعر افضل عاجز جن کا سبطین خان بہت احترام کرتے ہیں، اپنے ساتھ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو لے کر ان کے پاس گئے کہ انہیں میانوالی کے علاقےمیں کوئلے کی کان دیں تو انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ اگر یہ تمام تر قانونی تقاضے پورے کر سکے تو ضرور کان خریدنے میں کامیاب ہو جائیں گے وگرنہ نہیں۔ چونکہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی تمام تر قانونی تقاضے پورے نہیں کر سکے تھے، اس لئے وہ کسی کان کے مالک نہ سکے۔ عجیب بات ہے سبطین خان نے کبھی وزیراعلیٰ کے عہدے کی خواہش نہیں کی۔ جن دنوں عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا، ان دنوں اس بات کا بھی بہت شور تھا کہ سبطین خان وزیراعلیٰ بنائے جا رہے ہیں۔ انہی دنوں میری اُن سے بات ہوئی تھی۔ میرے پوچھنے پر کہا تھا ’’مجھے علم نہیں ہے اس کا۔ نہ اس سلسلے میں میری عمران خان سے کوئی بات ہوئی ہے۔ ہاں اگر خان صاحب نے یہ بوجھ میرے کندھوں پر ڈال دیا تو میں اسے اپنی عاقبت سنوارنے کا وسیلہ سمجھوں گا‘‘۔