گوادر کبھی ایک خاموش گائوں کا نام تھا جہاں مچھیروں کی آمد و رفت کے دوران کچھ آوازیں سنائی دیتی تھیں لیکن اب چہل پہل کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی قومی ایئر لائن کی دن میں ایک نہیں ، چارچار پروازیں آرہی ہیں۔سبب اس کا ’’گوادر ایکسپو 2018‘‘ کے نام سے ہونے والی دو روزہ عالمی نمائش ہے جس کا افتتاح وزیراعظم شاہد خاقان عباسی 29 جنوری کو کریں گے۔
گوادر کے واحد فائیواسٹار ہوٹل سے لے کرمعمولی نوعیت کے ہوٹلوں اور چھوٹے موٹے مہمان خوانوں تک کسی بھی جگہ ٹھہرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ فائیواسٹار ہوٹل کے کمرے، جن کو لگے تالے زنگ آلود ہو چکے تھے اب ایسے آباد ہوئے ہیں کہ 600 ڈالر یومیہ پر بھی کمرہ دستیاب نہیں ہے۔ سی پیک کے ثمرات گوادر شہر کی سڑکوں پر رواں دواں لگژری گاڑیوں اور لوگوں کے مطمئن چہروں پر دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ زمینوں کی خریدوفروخت کا کاروبار خوب چمک رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مچھلی کا بزنس بھی عروج پر ہے۔
گوادر پورٹ سے ذرا پہلے میرین ڈرائیوواقع ہے جس پر چہل قدمی کرتے ہوئے لگتا ہے کہ اسے مزید ترقی دی گئی تو اس کے مقابلے میں کراچی سی ویو، دبئی جمیرا بیچ اور ممبئی میرین ڈرائیو ماند پڑتے دکھائی دیں گے۔ گہرے نیلے سمندر کو اسی طرح صاف ستھرا رہنے دیا گیا تو مستقبل میں یہ کاروباری و تجارتی مرکز کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بن سکتا ہے۔
گوادر ائرپورٹ سے لے کر گوادر پورٹ تک سیکورٹی کے غیرمعمولی انتظامات دیکھنے کو ملتے ہیں۔چینی انجینئرز اور دیگر ملازمین پورٹ کے احاطے میں واقع چائنا ٹائون میں رہتے ہیں اور شہر کے اندر ان کی نقل وحرکت ابھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔اس کے ساتھ ساتھ گلیوں،بازاروں میں خواتین بھی دکھائی نہیں دیتیں لیکن یہ نقشہ بہت جلد تبدیل ہونے والا ہے۔گوادر سرمایہ کاری اور رہائش کے لحاظ سے پاکستان کا محفوظ ترین شہر بن چکا ہے۔
بلوچوں کی روایتی مہمان نوازی نے اس شہر کو پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والے مہمانوں کے لیے کچھ اور پرکشش بنا دیا ہے۔گفتگو کے دوران بلوچی اور اُردو کے ساتھ ساتھ پنچابی بھی تواتر سے سننے کو ملتی ہےبلکہ زمینوں کی خریدوفروخت کو کسی زبان کا نام دیا جائے تو پنجابی سے بہتر کوئی اور زبان ہو ہی نہیں سکتی۔پچھلے کچھ برسوں کے دوران زمینوں کی قیمتیں چارسوگنا بڑھی ہیں۔شہر کے تجارتی علاقوں میں پلاٹوں کی قیمت لاکھوں سے نکل کر کروڑوں تک جا پہنچی ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد میں کسی قسم کی کاروباری رقابت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ سب کے سب مل بانٹ کر اس نعمتِ خداوندی سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
’’گوادرایکسپو2018ء‘‘ کے دوران ’’گوادرفری زون‘‘کا افتتاح بھی ہونا ہے۔گوادرپورٹ کے دورے کے دوران جب ہماری ملاقات چائنا اورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کے چیئرمین وچیف ایگزیکٹو آفیسر ژنگ بائوژونگ سے ہوئی تو انہوں نے گوادرمیں ہونے والی ترقی اور اس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو پہنچنے والے فوائد کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ژنگ بائوژونگ ’’گوادرایکسپو‘‘ کے انتظامات کے حوالے سے انتہائی مصروف ہونے کے باوجود بہت تازہ دم اور خوش مزاج دکھائی دیے۔ساتھ ساتھ اس بات کے لیے پرعزم بھی کہ گوادر بہت جلدپورے ریجن کا ایک بڑا تجارتی مرکز بن جائے گا۔ باوژونگ کی بات کی جائے تو بخشی بابا کا ذکر بھی ضرور آتا ہے۔
ان دونوں کی کہانی بھی گوادر میں آباد چینی اور مقامی باشندوں جیسی ہے۔بخشی بابا رات بھر جاگتا ہے اور صبح کی نماز پڑھ کر سوجاتا ہے۔بائوژونگ اسی وقت نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور اپنے دن کا آغاز کر دیتے ہیں۔یعنی صبح سویرے جب رزق تقسیم ہورہا ہوتاہے تو بائوژونگ جاگ رہے ہوتے ہیں اور بخشی بابا سو رہا ہوتا ہے۔ گوادر ایک جیسی ترقی اُسی وقت کرے گا جب چینی اور مقامی باشندوں کے شب وروز بھی ایک جیسے ہوں گے۔پینے کومیٹھا پانی جب سب کو ملے گا تو سونے کو میٹھی نیند بھی سب کے نصیب میں ہو گی۔