لاہور (ویب ڈیسک) برطانوی اخبار ڈیلی میل کی سٹوری پر شریف خاندان اور مسلم لیگی قیادت کا ردعمل روائتی اور پھسپھسا ہے‘ صحافی ڈیوڈ روز کی تحقیقی سٹوری کو عمران خان اور ان کے مشیر شہزاد اکبر کی کارستانی قرار دے کر شریف خاندان اتنے سنگین بلکہ مکروہ الزام کو آسانی سے رد کر سکتا ہے نامور کالم نگار ارشاد احمد عارف اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ نہ قانونی کارروائی کی دھمکی دے کر پاکستانی عوام کے سامنے سرخرو‘ پچھلے سال غالباً 23جنوری کے شمارے میں ڈیوڈ روز نے ڈیلی میل میں لندن کے فلیٹوں پر ایک تہلکہ خیز سٹوری شائع کی تھی جس کا عنوان تھا”Pent House Pirates”مگر ’’پینٹ ہائوس کے قزاقوں‘‘ نے بلند بانگ دعوئوں کے مطابق صحافی اور اخبار پر ہرجانے کا دعویٰ کیا نہ برطانوی حکومت سے احتجاج کہ آپ کے اخبار میں حکمران جماعت مسلم لیگ کے سربراہ اور اہل خانہ کے خلاف ایسی دلآزار اور بے بنیاد سٹوری شائع ہوئی ہے جس کا سر ہے نہ پیر۔ سٹوری سے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول’’ان کے وزیر اعظم‘‘ بلکہ ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا‘ دنیا میں پاکستان کا تشخص ایسی ریاست کے طور پر ابھر ا جہاں حکمران قزاق کا روپ دھار چکے ‘وہ بحری قزاقوں کی طرح جب چاہیں ریاستی اداروں اور عوام کو یرغمال بنا کر لوٹ مار شروع کر دیتے‘ قومی وسائل غیر قانونی طریقے سے‘ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرتے‘ مہنگی جائیدادیں بناتے اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں‘ شریف خاندان نے اس وقت اعلان کیا کہ ڈیلی میل اورڈیوڈ روز کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ‘مگر خاموشی چھا گئی‘ ڈیوڈ روز کا حوصلہ بڑھا اور اس نے ڈیڑھ سال بعد ایک اور سٹوری چلا دی‘ جب میاں شہباز شریف ‘مریم اورنگزیب اور شریف خاندان کے برخورداروں نے واویلا کیا‘ عدالتی کارروائی کی دھمکی دی تو ڈیوڈ روز ڈٹ گی اور اس نے مقدمے کا سامنا کرنے کا اعلان کیا‘ ساتھ ہی یہ کہنا نہ بھولا کہ ایسی ہی دھمکی آپ نے پچھلے سال بھی دی تھی‘ اس عدالتی چارہ جوئی کا کیا بنا؟ برطانیہ کا پریس طاقتور ہے اور کسی اخبار و جریدے میں شائع ہونے والی سٹوری پورے یورپ و ایشیا کے علاوہ باقی دنیا کو متاثر کرتی ہے لیکن ہتک عزت کے قوانین کہیں زیادہ سخت ہیں غلط سٹوری شائع کرنے پر برطانیہ میں کئی اخبارات و جرائد بند ہو چکے‘ بندش کی وجہ عدالتی یا حکومتی واقعات نہیں بلکہ وہ بھاری جرمانے ہوتے ہیں جو انتظامیہ ادا کرنے کی پابند ہے ۔چند سال پیشتر برطانیہ بلکہ یورپ کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار نیوز آف دی ورلڈ بند ہو گیا جبکہ اسی اخبار کی سٹوری پر ہمارے کھلاڑیوں سلمان بٹ‘ محمد عامر اور کئی دیگرکو مختلف سزائیں بھگتنا پڑیں۔ پاکستان کے دو سیاستدانوں چودھری ظہور الٰہی مرحوم اور مولانا کوثر نیازی نے اپنے خلاف الزام تراشی پر مبنی خبروں کی اشاعت پر برطانوی اخبارات سے بھاری ہرجانہ وصول کیا اور زندگی بھر ان کے شر سے محفوظ رہے‘ بعد میں لیکن ہمارے کسی سیاستدان کو کبھی یہ توفیق نہ ہوئی‘ دھمکیاں البتہ مختلف سیاستدان دیتے رہے‘ ڈیلی میل تو سن اور مرر کی طرح کا اخبار ہے‘ لندن ٹائمز جیسی ساکھ کا حامل نہیں لیکن پچھلے سال اکتوبر میں ایک سٹوری امریکہ کے معتبر اور قدیم اخبار وال سٹریٹ جنرل نے بھی شائع کی تھی۔اس خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ابراج کیپیٹل کے عارف نقوی نے کے الیکٹرک کے سودے میں شریف برادران کو دو ارب روپے کی رشوت دی۔ شریف خاندان نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ امریکی اخبار نے تردید شائع نہ کی تو قانونی چارہ جوئی کی جائے گی مگر ناقدین کی رائے درست ثابت ہوئی کہ ’’او دن ڈبا جد وں گھوڑی چڑھیا کُبا‘‘(وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب کوئی کبڑا گھڑ سواری کرے گا) وہ دن اور آج کا دن وال سٹریٹ نے تردید شائع کی نہ اسے ہتک عزت کا کوئی نوٹس موصول ہوا۔ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں اور قانونی و عدالتی نظام اس قدر گنجلک کہ حکمران و سیاستدان کسی غلط سٹوری کی اشاعت پر عدالتی چارہ جوئی کے بجائے صحافیوں کی زبان بندی کے لئے مالی ترغیب‘ دبائو اور بلیک میلنگ کو مفید خیال کرتے ہیں مگر امریکہ و یورپ کا معاملہ مختلف ہے ۔اگر شریف خاندان نے ڈیلی میل اور وال سٹریٹ جرنل کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہوتا تو اب تک کامیابی کی صورت میں اس قدر رقم ضرور ملتی جس سے لندن میں آٹھ نہیں تو چار مزید مہنگے فلیٹس خریدے جا سکتے۔ دونوں صحافیوں کو سزا ملتی اور عین ممکن ہے شرمندگی کے مارے انتظامیہ اخبارات کی بندش کا اعلان کر دیتی مگر سیاسی مصروفیات اور ’’مٹی پائو‘‘پالیسی کے تحت شریف خاندان نے پروا کی نہ ان کے ناصر بٹ اور ناصر جنجوعہ ایسے جانثار و سرفروش متوالوں میں سے کسی کو خیال آیا کہ الزام تراشی کے مرتکب افراد کو چھٹی کا دودھ یاد دلائیں۔ملتان کے میاں طارق کی خدمات حاصل کرنے کی تدبیر بھی کسی کو نہ سوجھی۔ فارسی میں کہتے ہیں گر بہ کشتن روز اول اگر ڈیوڈ روز کا مکّو جنوری 2018ء میں ٹھپ دیا جاتا‘ جب پاکستان میں حکومت اپنی تھی اور قومی وسائل مکمل دسترس میں تو دوبارہ مجال ہے کسی اخبار یا صحافی کو جرأت ہوتی مگر اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ شاہد خاقان عباسی‘ میاں شہباز شریف اور مریم اورنگزیب لندن کی عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں مگر اخبار کے کان پر جوں رینگی ہے نہ ڈیوڈ روز پریشان نظر آتا ہے الٹا وہ پاکستانی چینلز پر آ کر مسلم لیگیوں کا منہ چڑا رہا ہے کہ کر لوجوکرنا ہے۔شہزاد اکبر بھی روزانہ عدالت جانے کی دھمکی دیتا ہے۔ پچھلا ہفتہ ویڈیو لیکس اور پریس کانفرنس کے ذریعے مریم نواز کے نام رہا۔ ہر چینل اور اخبار کا موضوع سخن جج ارشد تھے‘ میاں نواز شریف کی سزا یا متنازعہ ویڈیوز۔ یہ ہفتہ مگر شریف خاندان کے لئے شرمندگی کا ہے‘ سٹوری چونکہ ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہوئی اس لئے کوئی ٹائمنگ کو عمران خان سے منسوب کرسکتا ہے نہ ڈیوڈ روز کو تحریک انصاف کا کارندہ قرار دینا آسان۔ شہروں کے باسیوں نے دلدل کا لفظ سنا ہے‘مفہوم بھی جانتے ہیں مگر کبھی دلدلی علاقے میں گئے ہیں نہ اس کی تباہ کاریوں سے واقف۔ ہم دیہاتی جانتے ہیں کہ یہ کیا بلا ہے۔ جب کوئی قسمت کا مارا دلدل میں پھنس جائے تو سیانے مشورہ دیتے ہیں کہ ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے صرف چیخ پکار کرے تاکہ کوئی سن کر مدد کو آئے اور نکالنے کی تدبیر کرے کیونکہ ہاتھ پائوں مارنے اور ہلنے جلنے سے آدمی دلدل میں مزید دھنستا چلا جاتا ہے۔ شریف خاندان ان دنوں مشکلات اور مصیبتوں کی دلدل میں پھنسا ہے ۔فارسی کے مشہور شاعر والی کیفیت ہے۔ ہر بلائے کز آسماں اَید گرچہ بردیگرے قضا باشد‘ بر زمین نارسیدہ ‘مے پر سدخانہ انوری کجااست (آسمان سے جو بھی مصیبت اترتی ہے اگرچہ کسی اورکا مقدر ہو لیکن زمین پر پہنچنے سے قبل پوچھتی ہے انوری کا گھر کہاں ہے؟) میاں شہباز شریف اپنے دوست چودھری نثار علی خاں کی طرح سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ دلدل میں پھنس کر صرف شور شرابا کرتے ہیں ہاتھ پائوں نہیں مارتے کہ انسان دھنستا ہی چلا جاتا ہے ‘مگر میاں نواز شریف اور مریم نواز کی ’’میں نہ مانوں‘‘ میں فرق نہ آیا اور یہ خاندان بظاہر خانہ انوری ہے جس کا مُنہ ہر بلا نے دیکھ لیا ہے۔ ویڈیو سکینڈل ‘جج ارشد ملک اور عدلیہ و فوج کو دفاعی پوزیشن پر لاکر میاں نواز شریف کو راتوں رات رہا کرانے کی کوشش تھی مگر اب یہ ججوں اور عدلیہ کو خریدنے‘ بلیک میل کرنے اور مرضی کے فیصلے لینے کا ایسا سکینڈل بن چکا ہے جس سے ارشد ملک کا چھٹکارا ممکن ہے نہ مریم نواز اور ان کے ضرورت سے زیادہ مستعد‘ چالاک اور چالباز ساتھیوں کا بچنا آسان‘ ارشد ملک کے بیان حلفی نے بازی پلٹ دی ہے اور ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے والی کیفیت ہے جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ میاں شہباز شریف نے اگر ڈیلی میل پر مقدمہ کر دیا اور ڈیوڈ روز ثبوت نہ پیش کر سکا تو اشک شوئی ہو گی مگر ابھی چائے کے کپ اور ہونٹوں میں بہت فاصلہ ہے۔