لاہور (نیوز ڈیسک ) برطانیہ کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بریگزٹ کا ہے اور اسی پر ہی ان کی پارلیمنٹ میں طوفان برپا ہے۔یہی مسئلہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم بورس جانسن کے لیے بھی گلے کی ہڈی بنتان ظر آ رہا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق بورس جانسن کی پارٹی رکن منحرف ہو کر یورپی یونین نواز لبرل ڈیموکریٹس سے جاملیں جس کے بعد وقت سے قبل عام انتخابات کا امکان بڑھ گیا ہے۔پارلیمنٹ میں معاملے کو لے کر زبردست بحث ہوئی جس میں بورس جانسن نے قانون سازوں کی جانب سے بریگزٹ حکمت عملی کو روکنے کے لیے منصوبے کی مذمت کی اور کہا کہ اس سے یورپی یونین کے ساتھ علیحدگی کے نئے معاہدے پر بات چیت کرنے کے ارادے کو نقصان پہنچے گا۔واضح رہے کہ اگر برطانوی وزیر اعظم برسلز سے مقرر کردہ وقت پر بریگزٹ معاہدہ نہیں کر سکے تو ان کی کنزرویٹو پارٹی بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے کی تاریخ میں توسیع کی منصوبہ بندی کرے گی۔امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اپوزیشن اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئی تو اگلے مرحلے میں وہ بریگزٹ معاملے کی مزید تاخیر کے لیے پارلیمنٹ سے قانون منظور کرنے کا مطالبہ کرے گی۔جس وقت بورس جانسن اپنی بات کہہ رہے تھے تب کنزرویٹو پارٹی کی فلپ لی فلور عبور کرکے حزب اختلاف کی جانب چلی گئیں۔انہوں نے اپنے استعفے میں کہا کہ بریگزٹ کے نتیجے میں کنزرویٹو پارٹی انگریز قوم پرستی اور مقبولیت کے مرض میں مبتلا ہوچکی ہے۔اس سے قبل بورس جانسن ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر واضح کرچکے ہیں کہ وہ بریگزٹ میں مزید ’بے مقصد التوا‘ کا تقاضہ نہیں کریں گے۔برطانوی وزیر اعظم اب ارکان پارلیمنٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی تحریک پیش کرتے ہوئے اس بل پر بحث کے لیے پارلیمانی ایجنڈے میں جگہ بنانے کی کوشش کریں گے۔اگر وہ کامیاب ہوئے تو اگلے روز بل متعارف کرائیں گے اور اگلے ہفتے پارلیمنٹ معطل ہونے سے قبل اسے منظور کرانے کی کوشش کریں گے۔بورس جانسن کے حامی خبردار کرچکے ہیں کہ ہاؤس آف کامنز میں ہونے والے پہلے ووٹ میں شکست کے باعث انہیں 14 اکتوبر کو انتخابات کرانے کی کال دینی پڑے گی۔