امریکا کی ریاست ٹیکساس کے ہائی اسکول میں ساتھی طالب علم کی فائرنگ سے جاں بحق پاکستانی طالبہ سبیکا کی میت لے جانے والی ایئرلائن کی پرواز2گھنٹےتاخیرکاشکار ہوگئی، پرواز کی روانگی میں تاخیرموسم کی خرابی کے باعث ہوئی ۔
پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی اور سینئر سفارت کار علی فراز جارج بش ایئر پورٹ پر موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ جب تک میت روانہ نہیں کی جاتی واپس نہیں جائیں گے۔
سبیکا کی کزن شہیرہ میت کے ساتھ پاکستان واپس آئیں گی۔
اس سے قبل سبیکا عزیز شیخ کی نماز جنازہ ہیوسٹن میں ادا کی گئی جس میں پاکستانی کمیونٹی اور مقامی حکام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
سبیکا شیخ کی نماز جنازہ ہیوسٹن کے علاقے شوگر لینڈ کی مسجد حمزہ میں ادا کی گئی۔
اس موقع پر ہونے والی دعائیہ تقریب میں ہیوسٹن کے میئر سلویسٹر ٹنر، شوگرلینڈ کے میئر جو، زمرمین، ٹیکساس سے رکن کانگریس شیلا جیکسن اور ال گرین نے بھی شرکت کی ،جبکہ پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی سمیت خواتین کی بھی بڑی تعدادشریک ہوئی۔
سبیکا کی نمازجنازہ کے موقع پر مسجد حمزہ کے سامنے گن کنٹرول کے خلاف مظاہرہ بھی کیا گیا ۔
سبیکا شیخ کی نماز جنازہ میں پاکستانی کمیونٹی اور مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی، ہیوسٹن کراچی سسٹر سٹی کے صدر سعید شیخ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔
سبیکا کی کزن شہیرا نے بتایا کہ سبیکا کی والدہ سکتے کی کیفیت میں ہیں، ہم شاید اس صدمے سے ساری زندگی نہ نکل پائیں۔
امریکا میں سبیکا عزیز شیخ جیسن کوگ برن اور جولین کوگ برن کے گھر پر مقیم تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سبیکا امریکی ثقافت سیکھنا چاہتی تھی اور اس کی خواہش تھی کہ امریکا اور پاکستان کے عوام ایک دوسرے کے قریب آئیں۔
سبیکا کی والدہ کہتی ہیں کہ سبیکا دوستوں جیسی تھی ، وہ کہا کرتی تھی کہ ٹیکساس اسکول میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے تنہائی کا شکار ہیں۔
والد نے بتایا کہ سبیکا کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا،اسے امریکی تاریخ بہت پسند تھی کیونکہ یہ سیکھنے کے لیے بہترین ہے، وہ سفیر بن کر پاکستان کا نام بلند کرنا چاہتی تھی، ہونہار طالبہ نے کریٹو رائٹنگ پر ایوارڈ بھی جیتاتھا۔
ایک صفحے پر درج سبیکا کے ان الفاظ کہ ’’نہ رو کہ اب سب گزر چکا، اب مسکراؤ کہ جو ہونا تھا ہوگیا‘‘سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اپنے غمزدہ ماں باپ کو تسلی دے رہی ہو۔
سبیکا کی میز پر آج بھی اس کی ڈائری رکھی ہوئی ہے جس میں اس کے پسندیدہ اقوال اور جملے درج ہیں، اس کا شیلف کتابوں سے بھرا پڑا ہے جس میں برطانوی ناول نگار رولڈ ڈال اور افغان امریکن ناول نگار خالد حسین کی تصانیف شامل ہیں۔
دس ماہ سے گھر سے دور سبیکا اور اس کے دیدار کو ترستی ماں کا ایک ایک دن گن کر گزر رہا تھا۔
’’بس 19دن رہ گئے ہیں ماما‘‘، یہ وہ جملہ تھا جو اس نے والدہ سے آخری فون کال پر کہا، سبیکا نے عید گھر پر منانی تھی مگر وہ روزے کی حالت میں گولیوں کا نشانہ بن گئی۔
سبیکا نے والدہ کو بتایا تھا کہ اسکول میں پڑھنے والے زیادہ تر بچے تنہائی کا شکار تھے،اسے جب امریکا میں داخلہ ملا تو وہ بے حد خوش تھی، ایک ویڈیو میں اس نے اپنی کیفیت یوں بیان کی کہ جیسے میں چاند پر پہنچ گئی ہوں اور دیوانوں کی طرح خوشی سے اچھلنے لگی، اس خوشی کو والدین نے بھی اپنی زندگی کے یادگار لمحات قرار دیا۔
مگر بیٹی کو امریکا بھیجنا اب ان کی زندگی کا تلخ ترین فیصلہ بن چکا ہے، ان کا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ چہیتی بیٹی انہیں ہمیشہ کےلیے روتا چھوڑ گئی ہے۔